کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 233
مولانا عبداللہ امجد چهتوى صاحب نے ’بدعت اوراس كى مروّجہ صورتيں ‘كے موضوع پر ديا۔ انہوں نے قرآن كى يہ آيت ﴿ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللهُ… الآية ﴾ پڑهنے كے بعد كہا كہ يہ آيت يہوديوں كے ردّ ميں نازل ہوئى جنہوں نے اپنى اختراعى شريعت كو موسىٰ عليہ السلام كى طرف منسوب كركے اس پر عمل كو اللہ كى محبت كا موجب قرار ديا اور اب بهى ہر گروہ اللہ كى محبت كے نام كا ہى دعوىٰ كرتا ہے ،جبكہ اس آيت نے اللہ كى محبت كا صرف ايك طريقہ بتايا ہے اور وہ اطاعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اسكے علاوہ باقى سب كچھ بدعت ہے۔ آپ نے واضح ترين الفاظ ميں بدعات سے بچنے اور اللہ كے خوف كو دل ميں ركهتے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كى سنت پر عمل پيرا ہونے پر زور ديا اور اس سلسلہ ميں صحابہ اور سلف صالحين كے طريق كار پر كار بند رہنے كى نصيحت كى۔ انہوں نے بدعت كو دو قسموں : بدعت ِحقيقى اور بدعت ِوصفى ميں تقسيم كرتے ہوئے كہا كہ ہمارے ہاں بدعت ِوصفى بہت زيادہ ہے يعنى كسى چيز ميں حد درجہ غلو سے كام ليا جائے۔ انہوں نے بدعت كى دورِ حاضر ميں مروّ جہ شكلوں كو بيان كرتے ہوئے ان سے بچنے كى تلقين كى اور كہاكہ رسول اللہ نے بدعت كے ادنىٰ سے شائبہ كو بهى برداشت نہيں كيا۔ اس كے ساتھ ساتھ انہوں نے سنت اور بدعت كے فرق كو پورى طرح سمجهنے پر زور ديا اورہر كام كو بدعت قرار دينے كے رجحان كى بهى حوصلہ شكنى كى ۔
٭ اس روز كا آخرى اور چوتها خطاب مولانا عتيق اللہ مدير مركز الدعوة السلفيہ ستيانہ بنگلہ نے ’فكر آخرت‘ كے موضوع پر ديا جو انتہائى پراثر اور ايمان افروز تها۔ انہوں نے طلبا كو سلف كى روايات اپنانے كى تلقين كى۔ خطاب كے آخر ميں انہوں نے سعوديہ ميں كام كرنے والے بعض علمى اور تحقیق اداروں كا تعارف بهى كروايا۔
٭ اس روز ظہر انہ كے بعد مختصر آرام كركے تمام طلبہ سير وتفريح كے لئے واہگہ بارڈرچلے گئے جس كے لئے دوبسوں كا انتظام كيا گيا تها۔ واپسى پر مغرب كے بعد باغِ جناح ميں كويت ميں جامعہ لاہور الاسلاميہ كے نمائندہ حافظ محمد اسحق زاہدكے زير صدارت كوئز پروگرام كا انعقاد ہوا جس ميں كامياب طلبہ كو انعامات عطا كئے گئے۔ آخر ميں عشائيہ كا انتظام تها، جس كے بعد 11بجے شب طلبہ واپس اپنى قيام گاہ ميں لوٹ آئے۔