کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 232
مدنى صاحب نے كہا كہ اجتہاد و تقليد كے كے حوالہ سے افراط تفريط پايا جاتا ہے۔ ايك طرف جمود كا حال يہ ہے كہ وہ بات جو امام كے قول كے خلاف ہو يا تو وہ منسوخ ہے يا اس كى تاويل كى جائے گى جيسا كہ امام كرخى رحمۃ اللہ علیہ نے كہا ہے ۔اس كے مقابلے ميں ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے تقليد كا سخت ردّ كرتے ہوئے ہر شخص كو براہ راست قرآن و سنت سے استنباطِ احكام اور اجتہادكرنے كا ذم دار قرار ديا ہے۔ان كا دعوىٰ ہے كہ تمام مسائل واضح طو رپر كتاب وسنت ميں موجود ہيں ۔
فقہاے محدثين كا موقف ان دو انتہاوٴں كے درميان راہ اعتدال پر مبنى ہے ۔اہل حديث نہ تقليد ِجامد كا شكار ہوتا ہے اورنہ ظاہرى رجحانات ركهتا ہے، يہى جمہور كا نظريہٴ اجتہاد ہے جسے ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولى اللہ نے پيش كيا ہے۔ اس كى رو سے شريعت كے ظاہر اور مقصد دونوں كى رو رعايت كرنا ضرور ى ہے، كسى ايك كو نظر انداز كرنا درست نہيں ۔
تيسرا دن ( 2 / اگست، بروز سوموار )
٭ جامعہ لاہور الاسلاميہ كے فاضل استاذ قارى محمد ابراہيم ميرمحمدى صاحب كى تلاوت سے صبح كے سيشن كا آغاز ہوا۔ان كى تلاوت انتہائى اثر انگيز تهى۔
٭ بعد ازاں ناظم تربيتى وركشاپ حافظ محمد انورنے اظہارِ خيال كرتے ہوئے كہا كہ آج ہمارے مدارس ميں تربيت كا فقدان ہے ، ہم قرآن اور اس كى تلاوت كے تقاضوں كو فراموش كر چكے ہيں ۔اصحابِ صفہ اور اسلاف كى جهلك آج ہمار ے مدارس ميں نظر نہيں آتى ۔
انہوں نے كہاكہ طالب علم كى علمى، فكرى اور عملى تربيت ميں اصل كردار استاد كا ہوتا ہے، كتاب ثانوى چيز ہے۔ انہوں نے تدريس كے ساتھ ساتھ تحقیق كو بهى مدارس ميں لازمى قرار دينے پر زور ديتے كہا كہ كليہ كى سطح پر مقالہ كو لازمى قرار ديا جائے تاكہ طلباكو مصادرِ علومِ اسلاميہ سے شناسائى ہو سكے ۔
٭ اس كے بعد كہنہ مشق قلمكار اور نامور موٴرخ مولانا محمد اسحق بهٹى صاحب نے ’امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ كے حدود علم كى وسعتيں ‘ پر اپنا مقالہ پيش كيا ، جو معلوماتى ہونے كے ساتہ ساتہ زبان وبيان كا بهى شاہكار تها ۔مولانا كا يہ مقالہ محدث كے اس شمارہ ميں شائع كيا جا رہا ہے ۔
٭ اس روز كا تيسرا خطاب مركز الدعوة السلفيہ، ستيانہ كے دار الافتاكے رئيس اور شيخ الحديث