کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 231
انہوں نے وضاحت كى كہ اس كے پیچھے اگرچہ ڈاكٹر اقبال رحمۃ اللہ علیہ كا نظريہٴ اجتہاد كار فرما ہے كہ دين ميں جہاں نقص نظر آئے، اس كو اجتہاد سے پورا كيا جائے۔ ڈاكٹر اقبال عظيم فلسفى،ہمدردِ قوم اور ملت اسلاميہ كے بلند پايہ مصلح اور حدى خواں تهے،ليكن ان كا پرزور صاحب ِگفتار ہونا انہيں ماہر شريعت بنا دينے كے ليے كافى نہيں وہ خود سارى زندگى مقتدر علماے دين كى خوشى چينى كے ليے بيتاب رہے ليكن اصل مصادرِ شریعت سے نا آشنا ہونے كى بنا پر ان كا مقام علمى عقدہ كشائى اور مفتى كا نہيں ہے اور وه خود بهى اس كے مدعى نہ تهے، لہٰذا ڈاكٹر اقبا ل كى اجتہاد كى وہ تعريف جو تشكيل جديد الٰہیات اسلاميہ ميں ہے، در حقيقت اجتہاد كى تعريف ہى نہيں ہے۔ اسى طرح اجتہاد كا اختيار اراكين اسمبلى كو دينا بهى اجتہاد كے بجائے ’قانونى تقلید‘ كا تصور ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے اجتہاد كے جس تصور كو منسوب كيا جاتا ہے ، علامہ اقبال نے خود اس كے بارے ميں تردّد كا اظہار كيا ہے۔
بلاشبہ ہرمسئلہ كى اصل اسلامى شريعت ميں موجود ہے اور شريعت كى حدود ميں اجتہاد كے وسيع اُصولوں كو استعمال ميں لاتے ہوئے شرعى بنياد پر ہى ہر نئے پيش آمدہ مسئلہ كا فيصلہ كرنا چاہئے۔ اگر يہ تصور مان ليا جائے كہ دنيا كے بعض اُمور كے بارے ميں اسلام خاموش ہے تو اس صورت ميں شريعت سے ماورا علما كى راے پر عمل كرنا بهى تقليد بن جائے گى۔ اللہ تعالىٰ نے كسى انسان كو اس جيسے دوسرے انسان كى رائے كا شرعاً پابند نہيں ٹھہرايا ہے ۔
اندلس كے حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ تقلیدى جمود وتعصب كے رد عمل ميں اجتہاد كے ميدان ميں جوش وجذبہ كا مظاہرہ كرتے ہوئے دوسرا انتہائى رويہ اختيار كرتے ہيں كہ ہر مسلمان خواہ عالم ہو يا عامى ’اجتہاد‘ كا مكلف ہے كيونكہ كتاب وسنت ميں ہر مسئلہ كا واضح بيان موجود ہے۔
برصغير ميں تقليدى جمود كے خلاف جب فروغِ حديث كى تحريك چلى تو عوامى حلقوں كو حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ كى جذباتى دليلوں نے خاصا متاثر كيا اور مسلك ِاہل حديث كا حامل ايك سطحى نظر ركهنے والا طبقہ ظاہريت كا متوالا نظر آنے لگا جس سے پختہ نظر اہل علم كو تشويش ہوئى۔چنانچہ مولانا محمد اسماعيل سلفى رحمۃ اللہ علیہ نے شاہ ولى اللہ دہلوى رحمۃ اللہ علیہ كى وصيت كى تعميل ميں اپنى تصنيف ’برصغير ميں تحريك ِآزادىٴ فكر‘ ميں اہل حديث كا پيشوا ’فقہاے محدثين‘ كو قرار ديا ہے۔