کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 230
تعليمات كے خلاف اور تغيير لخلق اللہ كے زمرہ ميں آ تا ہے اورخود مغربى ممالك بهى اس غير فطرى طريقہ توليد كے مفاسد كو محسوس كرتے ہوئے اس پر پابندى عائد كر چكے ہيں ۔باقى رہى نباتات ميں كلوننگ تو اس كے نقصانات بهى اب مخفى نہيں رہے۔
٭ جامعہ محمديہ گوجرانوالہ كے شيخ الحديث اُستاذ الاساتذہ حافظ عبدالمنان نورپورى حفظہ اللہ كا خطاب اسى روز عصر كے متصل بعد شروع ہوا۔مولانا نے ’اخبارآحاد كى حجیت ‘ كے موضوع پر گفتگو كرتے ہوئے كہا كہ حديث كى حجیت كے حوالے سے اس وقت بے شمار فتنے سر اٹها رہے ہيں ليكن اس وقت ميرے پيش نظر حديث كو ظنى قرار دينے كا فتنہ ہے۔’ ظن‘ گمانِ غالب كے معنى ديتا ہے ليكن بہت سى صورتوں ميں يہ يقين پر بهى بولا جاتا ہے جيسا كہ اس كے بعد أن مخففہ يا مثقلهآجائے تو تب ظن درجہ بدرجہ يقين كا معنى ديتا ہے مثلاً ﴿اَلَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ أَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ﴾’أن‘ كے بغير ظن كے ديگر معانى ميں كذب و جهوٹ، ريب و شك، ظن اور ظن غالب بهى شامل ہيں ۔ حديث كے بارے ميں اعتراض كيا جاتا ہے كہ اوّل تو حديث ظنى ہے اورظن حجت نہيں ہوتا۔ اگر حديث كو’ ظن محض‘ گمان قرار ديا جائے تو سارے ذخيرۂ حديث پر پانى پهر جاتا ہے اور كوئى بهى حديث نہيں بچتى حالانكہ خبر واحد كے حجت ہونے كے بهى بے شمار دلائل ہيں اور يہ كہنا بهى غلط ہے كہ’ ظن‘ حجت نہيں ہے۔عقل و نقل سے يہ بات ثابت ہے كہ ’غالب ظن‘ كى بنا پرہى دنيا كے معاملات چلتے ہيں ۔پهر اپنے خطاب ميں مولانا نے حديث ِآحاد كے حجت ہونے كے متعدد دلائل پيش كئے۔
٭ اس كے بعد حافظ عبدالرحمن مدنى صاحب نے ’تصورِاجتہاد ؛ ڈاكٹر اقبال رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علما كے مابين‘ كے موضوع پر اظہارِ خيال كرتے ہوئے ايسے اجتہاد كو من گهڑت قرار دياجس كى بنياد شرعى نص ميں موجود نہ ہو اور ان لوگو ں كا ردّ كيا جو ميت كے بيٹوں كى موجودگى ميں دادا كى وصیت موجود نہ ہونے كے باوجود اجتہاد كے دعوے سے اس كے یتیم پوتے كو وراثت ميں از خود قانوناً حصہ دار قرار ديتے ہيں اور اس موقف كى پرزور تائيد كى كہ قرآن كى روسے دادا پریتیم پوتے كے لئے اپنى زندگى ميں وصیت كرنا فرض ہے كيونكہ نسخ صرف وراثت كے حصص ميں ہوا ہے جب كہ وصیت كى فرضيت برقرار ہے۔