کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 228
ميں كہاہے كہ نماز،زكوٰة، امربالمعروف اور نہى عن المنكر نفاذِ اسلام كى بنياد ہيں ۔اسلام كے اس پيغام كو اگر ہم اپنى زندگيوں ميں نافذ كريں تو ان چار باتوں سے اسلام نافذ ہوسكتا ہے۔ پهر انہوں نے ان چار اُصولوں كى بنياد پر ہونے والے فوائد كا تذكرہ كيا۔ اس سلسلے ميں اپنے زير نگرانى دينى جامعہ مركز الدعوہ السلفيہ، ستيانہ بنگلہ فيصل آباد كو بطورِ مثال كے ذكر كيا۔
٭ اس كے بعد حافظ مقصود احمد مدير مركز دعوة التوحيد وماہنامہ ’دعوةتوحيد‘اسلام آباد نے ’غلبہ اسلام‘ كے موضوع پر گفتگو كرتے ہوئے غلبہ اسلام كا مفہوم واضح كيا ۔انہوں نے كہا كہ يہ درست كہ اسلام دنياميں غالب ہونے كے لئے ہى آيا ہے، ليكن اس بات كو سمجهنے ميں لوگوں كو غلطى لگى ہے اور وہ يہ سمجهتے ہيں كہ غلبہ كامطلب ہے كہ زبردستى اور بزور كسى چيز پر قبضہ كرلينا۔ اسلام كا يہى مفہوم بيان كركے اسلام كو دہشت پسند اور مسلمانوں كو دہشت گرد ثابت كيا جارہا ہے جبكہ غلبہ اسلام كا مطلب يہ ہے كہ جوكوئى مسلمان ہوگا وہ كهلے دل سے اس كى حقيقت اور غلبہ كو تسليم كرے گا۔ بغير كسى لالچ، جبر اور خوف كے اسلام كى حقانيت كو تسليم كرنے والا ہى مسلمان بن سكتا ہے۔ اس سلسلے ميں ثمامہ بن اُثال كى مثال كو پيش كرتے ہوئے انہوں نے كہا كہ اسے تين دن تك مسجد ِنبوى كے ستون سے باندهے ركها گيا، آخر بدترين دشمنى اور نفرت كا اظہار كرنے كے بعد خود ہى يہ بات ماننے پر مجبور ہوگيا كہ اسلام ہى سچا دين ہے۔ اس كے مقابلے ميں آج امريكہ، افعانستان اور عراق پر جو ظلم كررہا ہے ،خطرناك ترين ہتهيار استعمال كرچكا ہے۔ يہ جبر اور ظلم ہے، اس طرح زمين تو فتح ہوسكتى ہے دلوں پر حكمرانى ممكن نہيں ہے۔
٭ اس روز كا چوتها خطاب ادارۂ تحقیقاتِ اسلامى انٹر نيشنل يونيورسٹى، اسلام آباد ميں شعبہٴ قرآن وسنت كے انچارج پروفيسر ڈاكٹر سہيل حسن صاحب كا تها۔ ان كا موضوع ’موسيقى اوراس كى شرعى حيثيت‘تها۔ ابتدا ميں طبى تحقیق سے انہوں نے ثابت كيا كہ موسيقى صالح روح كى غذا نہيں بلكہ بے شمار بيماريوں كى ماں اوربد روح كى غذا ہے۔ اس سے كان كے بہت سے عوارض لاحق ہوتے ہيں ۔ اُنہوں نے بتايا كہ موسیقى كے حوالے سے ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ ، غزالى رحمۃ اللہ علیہ ، يوسف قرضاوى اورغامدى گروہ نے جو مختلف آرا اپنائى ہيں ، ان حضرات كے يہ موقف جمہور علماء امت اور اسلامى تعلیما ت سے متصادم ہيں ۔ آلات ِموسيقى كى حرمت صدر اسلام سے علما كے