کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 224
ہميں اپنے اصل مركز حرمين شريفين سے جڑيں اور انكے علمى كام اورتعليمى تجربہ سے فائده اُٹهائيں ۔ سعودى يونيورسٹيوں ميں زير تعليم طلبا كى ذمہ دارى اس لحاظ سے اوربڑھ جاتى ہے كہ وہ اس كام كو بخوبى سرانجام دينے كى صلاحيت ركهتے ہيں ۔ ان كا فرض ہے كہ و ہ وطن پاك كى ضروريات كے حوالے سے بهى علمى كام كو آگے بڑهائيں ۔ مزيد برآں انہوں نے اس پروگرام كو ’انٹرنيشنل جوڈيشنل اكيڈمى‘ كے قيام كى تمہيد قرار ديا اور بتلايا كہ پاكستانى اور عرب قانون دانوں كے باہمى اشتراك سے اس منصوبہ كو پايہٴ تكميل تك پہنچانے كى كوششيں ہو رہى ہيں ۔ مدنى صاحب نے اپنے خطاب ميں الندوة العالمية للشباب الاسلامي ( ورلڈ اسمبلى آف مسلم يوتھWAMY) اور تربيتى وركشاپ 2004ء كا مختصر سا تعارف بهى پيش كيا۔ ٭ جامعہ ابى بكر كراچى كے مدير ڈاكٹر راشد رندهاوا صاحب نے نفاذِ اسلام كے حوالے سے عملى كوششوں كو اختيار كرنے پر زور ديا۔ انہوں نے كہا كہ اس حوالے سے دو طبقوں پر ذمہ دارى عائد ہوتى ہے؛ ايك حكومت پراور دوسرى علما كرام پر، ليكن افسوس كہ يہ دونوں طبقے اپنى ذمہ دارياں صحيح طور پر بجا نہيں لارہے۔ مقصد ميں كاميابى كا حصول اس وقت تك ممكن نہيں ہے جب تك ہم غفلت چهوڑ كر اپنے اوپر عائدذمہ داريوں كو پورا نہيں كريں گے ۔ ٭ پروگرام كى ابتدا ميں تربيتى وركشاپ كے ناظم حافظ محمد انور نے اپنے عربى زبان كے خطاب ميں ندوہ كا تعارف كروايا اور اس پروگرام كى غرض و غايت بيان كى۔ اپنے خطاب ميں انہوں نے سعودى حكومت كى اسلام كے لئے كى جانے والى سرگرميوں كا ايك مختصر جائزہ بيش كرتے ہوئے دونوں ملكوں كے مابين ثقافتى تعلقات كى اہميت پر زور ديا۔ان كے خيال ميں ايسے پروگرام دو اسلامى ممالك كے مابين بہترين علمى وثقافتى رابطہ كى بنياد ہيں ۔ يہاں اس امر كا تذكرہ بهى فائدہ سے خالى نہ ہوگاكہ محترم حافظ محمد انور صاحب جو جامعہ لاہور الاسلاميہ كے ہى سابق طالبعلم رہے ہيں اور يہيں سے اعلىٰ تعليم كے لئے بيرون ملك تشريف لے گئے، اب تك ہونے والے تينوں تربيتى وركشاپوں كے نہ صرف روحِ رواں ہيں ، بلكہ اس بابركت كام كا آغاز بهى ان كى مساعى سے ہى ممكن ہوا۔ ٭ تقريب كے مہمانِ خصوصى شيخ ابراہیم انور ابراہیم نے اپنے خطاب ميں حكومت