کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 216
لكهوى، مولانا عبدالرحمن لكهوى، مولانا حبيب الرحمن لكهوى اور ديگر بہت سے اہل حديث علماے كرام نے فلسفے ميں بهى مہارت پيدا كى اور منطق ميں بهى۔ اور ان علوم كى وہ باقاعدہ تعليم ديتے رہے، ليكن ان ميں سے كوئى بزرگ الٰہيات كے بارے ميں تشكيك ميں مبتلا نہيں ہوئے بلكہ ان علوم كو انہوں نے اسلام كى ترويج كے ليے استعمال كيا اور اسلامى احكام پر كسى نے اعتراض كيا تو ان حضرات نے ان علوم كى مدد سے اسلام كا دفاع كيا۔
ہمارے اسلاف رحمۃ اللہ علیہ نے ہر موقعے پر كتاب و سنت ہى كو قابل عمل قرار ديا اور اسى كو ہميشہ شائستہ التفات ٹھہرايا۔ فلسفہ و منطق كا جو حصہ كتاب و سنت سے متصادم اور تعليماتِ اسلامى كے منافى ہے، اسے نہ امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ نے مانا، نہ ہمارے اسلاف ميں سے كسى نے كوئى اہميت دى اور نہ اس دور ميں ہم اسے لائق ِتسليم قرار ديتے ہيں ۔ اس ضمن ميں ہم اپنے عالى قدر اسلاف سے ہم آہنگ ہوكر ظفر على خاں كے الفاظ ميں اعلان كريں گے كہ
ارسطو كى حكمت ہے يثرب كى لونڈى
فلاطون ہے طفل دبستانِ احمد
ہندوستان ميں ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ كے اثرات
يہاں يہ بهى عرض كرديں كہ ہندوستان پر بهى امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ كے ساغر ِعرفان كے چھینٹے پڑے اور انہوں نے توحيد كے جو خم كے خم لنڈهائے تهے، كفرستانِ ہند كے باشندے بهى ان سے بقدرِ استطاعت سيراب ہوئے اور ان كے ظاہر و باطن كى دنيا بدلى۔
شاہ ہند علاء الدين خلجى كے عہدميں امام كے ايك قابل فخر شاگرد عبدالعزيز اردبيلى يہاں آئے، جن كى صحبتوں سے خود بادشاہ متاثر ہوا اور اس كے امراے دربار ميں سے بہت سے لوگوں كى ذہنى كايا پلٹى۔
محمد تغلق بادشاہ كے دور ميں بهى امام كے بعض فيض يافتہ علما ومشائخ نے قصد ِہندكيا اور خود بادشاہ كے سامنے تبليغ دين اور ترويج احكام اسلامى كا فريضہ انجام ديا، جس كے انتہائى خو ش گوار نتائج مرتب ہوئے۔ يہ ايك الگ موضوع ہے جو اہل علم كى عنانِ توجہ كا متقاضى ہے۔
ديارِ ہند ميں امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قيم رحمۃ اللہ علیہ كى قلمى كتابيں سب سے پہلے يہاں ايك اہل حديث