کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 215
ميں تو خوب غوروخوض كرتے ہيں اور اس موضوع كى وسعتوں كے اظہار ميں يد ِطولىٰ ركهتے ہيں ، ليكن الہٰيات كے بارے ميں جادہٴ حق سے ہٹے ہوئے ہيں ۔ اس باب ميں ان كے استاذ ومعلم ارسطو سے جو كچھ منقول ہے، وہ اگرچہ بہت تهوڑا ہے تاہم اغلاط و خطا سے پُر ہے۔“
امام كا كہنا ہے كہ ”خود فلسفہ يونان كے اساطين و ماہرين اس حقيقت كا اعتراف كرتے ہيں كہ علومِ الٰہيہ كے بارے ميں ان كا دائرۂ معلومات محدود اور سمٹا ہوا ہے۔ ان مسائل كے متعلق وہ جو كچھ كہتے ہيں ، اصل حقيقت اس سے لازماً متصادم ہوگى۔ اس كى كنہ تك پہنچنے كے تقاضے ہمارے نقطہ فكر سے بہت حد تك مختلف ہوں گے اور يقينيات كى حدوں تك رسائى كے ذرائع ان اُمور كے طالب ہوں گے جو ہمارى نظر كے دوائر سے اوجهل ہيں ۔“
عرض كرنے كا مطلب يہ ہے كہ امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ بطورِ علم كے حكمت و دانش اور فلسفہ و منطق كے حصول پر معترض نہيں ہيں ، وہ خود بہت بڑے فلسفى اور منطقى تهے۔ مولانا محمدحنيف ندوى نے اس موضوع پر ايك مستقل كتاب لكهى ہے، جس كا نام ’عقلياتِ ابن تيميہ‘ ہے۔ يہ كتاب كم وبيش چار سو صفحات پرمحيط ہے۔ اس ميں امام كے فلسفيانہ اور منطقيانہ پہلووٴں كى وضاحت كى گئى ہے۔
امام كا اعتراض اور اختلاف فلاسفہ اور منطقيين كے اس نقطہ نظر سے ہے جو الٰہيات سے تعلق ركهتا ہے۔ يہ نقطہ نظر تشكيك اور ارتياب كے دروازے كهولتا ہے اور انسان كو گمراہى كى واديوں ميں دهكيل ديتا ہے۔ كوئى صحيح العقيدہ مسلمان اس صورتِ حال كو ايك لمحے كے ليے بهى برداشت نہيں كرسكتا۔ آج اگر ہمارے مدارس ميں فلسفہ اور منطق كے علوم نہيں پڑهائے جاتے تو يہ الگ بحث ہے۔ ليكن پاكستان سے قبل فارغ التحصيل ہونے والے علماے كرام نے ان علوم كى باقاعدہ تحصيل كى، مثلاً حضرت حافظ عبداللہ روپڑى، حضرت حافظ محمد حسين روپڑى(والد ِگرامى حافظ عبد الرحمن مدنى)، مولانا ثناء اللہ امرتسرى اور ان كے استاذ مولانا احمد اللہ رئيس امرتسر، مولانا حافظ محمد گوندلوى، مولانا محمد ابراہيم سيالكوٹى، مولانا محمد اسماعيل سلفى، مولانا محمد حنيف ندوى ، مولانا سيد محمد داوٴد غزنوى،مولانا حافظ عبداللہ بڈهيمالوى، مولانا عطاء اللہ حنيف، مولانا حافظ محمداسحق شيخ الحديث جامعہ قدس، مولانا عطاء اللہ لكهوى، مولانا محمد على