کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 214
كہ حضرتِ امام جہاں علومِ شرعيہ و نقليہ ميں كامل عبور ركهتے تهے اور ان كے ہر گوشے پر حاوى تهے، وہاں فنونِ عقليہ اور فلسفہ و منطق ميں بهى مرتبہ كمال پر فائز تهے۔ بلكہ كہنا چاہيے كہ وہ ان فنون كے ائمہ و اساتذہ ميں ممتاز درجے كے مالك تهے۔ وہ اس مشكل تريں موضوع ميں كسى كو اپنا حريف اور مدمقابل نہيں سمجهتے۔ يہى وجہ ہے كہ ارسطو كى منطق پر انہوں نے اس انداز سے كڑى اور چبھتى ہوئى تنقيد كى جو اس موضوع سے متعلق كثرتِ معلومات كى روشنى ميں وہى كرسكتے تهے، كسى دوسرے كے بس كا روگ نہيں تها۔ ليكن يہاں يہ ياد ر ہے كہ انہوں نے ارسطو يا ديگر فلاسفہ و منطقیین كو جس مسئلے ميں ہدفِ تنقيد اور نشانہٴ اعتراض ٹھہرايا ہے، وہ مسئلہ الٰہيات ہے۔ منطق و حكمت كے باقى مسائل ميں وہ اصحابِ حكمت و دانش كى تعبير و تشريح كو قرين ِصحت قرار ديتے ہيں ۔ چنانچہ ايك جگہ لكهتے ہيں : نعم لهم في الطبعيات كلام، غالبه جيد وهوكلام كثير واسع ولهم عقول عرفوا بها ذلك وهم قد يقصدون الحق لايظهر عليهم العناد يعنى ” ان فلسفيوں نے طبيعات كے موضوع پر جو گفتگو كى ہے، اس كا زيادہ تر حصہ صحيح ہے اور ان كى يہ گفتگو خاصى وسيع اور مفصل ہے۔ وہ بہت اچهے دماغ كے مالك تهے۔ متعدد مسائل ميں وہ حق كے متلاشى دكهائى ديتے ہيں ۔ وہ ضد اور ہٹ دهرمى كا مظاہرہ نہيں كرتے۔“ ٭ فلاسفہ يونان كى معركہ آرائيوں اور جودتِ طبع كا ذكر كرتے ہوئے وہ سورۂ اخلاص كى تفسير ميں بہ الفاظِ واضح تحرير فرماتے ہيں : لكن لهم معرفة جيدة بالأمور الطبعية وهذا بحر علمهم وله تفرغوا وفيه ضيعوا زمانهم يعنى ”اُمورِ طبعيہ ميں انہيں خوب دسترس حاصل ہے۔ اس ليے كہ يہى ان كا ميدانِ فكر اور موضوعِ خاص ہے اور اسى پر غورو بحث ميں انہوں نے عمريں كهپائى ہيں ۔“ طبيعات كے متعلق فلاسفہ نے جوكارہاے نماياں سرانجام ديے ہيں اور اس كے برعكس الٰہيات كے سلسلے ميں جو لغزشيں كى ہيں ، اس كى تفصيل حضرت امام رحمتہ اللہ عليہ نے اپنى متعدد تصانيف ميں بيان كى ہے۔ ايك جگہ ان مسائل كے بارے ميں ان كے دائرۂ فكر كے درميان خط ِامتياز كھینچتے ہوئے فرماتے ہيں كہ ”مسائل فلسفہ كو حرزِ جان بنانے والے لوگ اُمورِ طبعيہ