کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 211
گئے اور بے اختيار پكار اُٹهے : ما رأتْ عيناي مثل ابن تيمية
”ميرى آنكهوں نے آج تك ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ ايسا غير معمولى انسان نہيں ديكها۔“
پهر اسى مجلس ميں فى البديھہ ان كى شان ميں ايك قصيدہ مدحيہ بهى كہہ ڈالا۔ ليكن جب سلسلہ كلام آگے بڑها اور ايك نحوى مسئلے سے متعلق امام فن ابوحيان نے سيبويہ كا حوالہ ديا تو امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ جوش ميں آگئے اور كہا كہ قرآن مجيد كے فہم و ترجمانى ميں سيبويہ نے 80 مقامات پر ٹهوكر كهائى ہے اور ادب و نحو كے بديہى تقاضوں سے انحراف كيا ہے۔ ابو حيان نے پيغمبر نحو كے بارے ميں ابن ِتيميہ كے يہ الفاظ سنے تو وہ ايك دم چكرائے اور ان كى ذہانت و ذكاوت پر حيران ہوكر رہ گئے۔
قرآنِ مجيد سے تعلق ِخاطر
قرآنِ مجيد وہ افشردہٴ نور اور سينہٴ لاہوت كا آخرى راز ہے جو جبريل امين كى وساطت سے قلب ِرسول ميں جاگزيں ہوا، امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ كو اس سے خاص تعلق خاطر تها۔ ان كے مطالب و معانى كے عمق و گہرائى ميں غوطہ زن ہونا اور گوہر مقصود كے حصول كے ليے تگ و تاز كرنا امام كا دل پسند مشغلہ تها۔ الله كے اس آخرى بول كے تمام پہلووٴں كو زاويہٴ فكر ميں لانے اور نطق ِجبريل كے ايك ايك لفظ كو حيطہٴ فہم ميں لانے كى غرض سے انہوں نے بہت سے تفسيرى مواد كو كہنگالا اور اس سے مستفيد ہوئے۔ اس ضمن ميں العقود الدرية ميں ان كے اپنے الفاظ ملاحظہ ہوں :
ربما طالعت على الآية الواحدة نحو مائة تفسير ثم أسئل الفهم وأقول يا مُعلّم آدم وإبراهيم! علِّمْني، وكنت أذهب الى المساجد المجهورة ونحوِها وأمرغ وجهى فى التراب وأسئل الله تعالى وأقول يا معلّم ابن ابراهيم! فَهِّمْني
يعنى”بسا اوقات ايك آيت كو سمجهنے كے ليے ميں نے سو سو تفسيروں كا مطالعہ كيا۔ مطالعہ سے فارغ ہونے كے بعد اللہ سے دعا كرتا كہ مجهے اس آيت كى سمجھ عطا فرما۔ ميں الله سے دعاگو ہوتا كہ اے آدم علیہ السلام اور ابراہيم علیہ السلام كے معلم! مجهے بهى علم كى نعمت سے مالا مال فرما۔
ميں آبادى كے ہنگاموں سے دور ويرانوں ميں نكل جاتا اور غير آباد مسجدوں ميں جابيٹهتا،