کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 210
وہ علم كا سمندر تهے اور انہيں بحرالعلوم كا مرتبہ حاصل تها۔ كسى مسئلے پر كسى سے ہم كلام ہوتے تو بحث كو اس طرح پهيلا ديتے كہ مسئلے سے مسئلہ نكلتا چلا آتا اور كوئى انہيں قابو ميں نہيں لا سكتا تها، حريف متحير رہ جاتا تها، جب وہ انہيں ايك طرف سے پكڑنے كى كوشش كرتا تو وہ دوسرى طرف نكل جاتے۔ ان كے ايك فاضل ہم عصر اور اس دور كے بہت بڑے مناظر شيخ صفى الدين النھد تهے۔ وہ ان كى گفتگو كا رنگ ديكہ كر انہيں كہتے ہيں : ما أراك يا ابن تيمية إلا كالعصفور حيث أردتُ أن أقبضه من مكان فرّ إلى مكان اٰخر ”اے ابن تيميہ! تم ايك چهوٹى چڑيا (يعنى كنجشك) كى طرح ہو، جب ميں اسے ايك جگہ سے پكڑنا چاہتا ہوں ، تو وہ اُڑ كر دوسرى جگہ جا پہنچتى ہے۔“ علوم و فنون ميں رسوخ امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ فقہ ميں حنبلى مكتب ِفكر كى طرف رجحان ركهتے تهے۔ ان كے زاويہٴ نظر كے مطابق يہى وہ مدرسہٴ فكر ہے جو براہ راست كتاب و سنت اور تصريحاتِ سلف كو اپنى آغوش ميں ليے ہوئے ہے۔ ليكن اس كا يہ مطلب ہرگز نہيں كہ وہ احناف و شوافع يا موالك كى فقہى كاوشوں سے نابلد ہيں يا اسے شائستہ التفات ٹھہرانے سے گريزاں ہيں ۔ ان كا دامن ِعلم و معرفت اس درجے كشادہ اور وسعت پذير ہے كہ وہ تمام تہذيبى ذخائر اور فقہى خزائن اس كى لپيٹ ميں آگئے ہيں ، جنہيں مختلف مكاتب ِفكر كے فقہاے ذى احترام نے سيكڑوں برس كى محنت و كاوش سے جمع كيا اور نہايت قرينے اور سليقے سے متونِ فقہ ميں ترتيب ديا ہے۔ يہى وجہ ہے كہ امام ممدوح جب كسى فقہى مسئلے پر اظہارِ راے كرتے ہيں تو كتاب و سنت كى روشنى ميں ايسى جرات واعتماد كے ساتھ كرتے ہيں جو ايك امامِ فقہ وحديث اور مجتہد ِعصر كے ليے مخصوص ہے۔ متعدد فقہى مسائل ميں انہوں نے عام فقہا كى روش سے ہٹى ہوئى راہ اختيار كى اور ان كى تعبير و ترجمانى ميں اپنے بے پناہ علمى و فكرى صلاحيتوں كا ثبوت بہم پہنچايا، اور حقيقت يہ ہے كہ يہى جادہٴ مستقيم تها اور يہى راہ صواب تهى اور انہى سے ان كى ژرف نگاہى اور ان كے علم ومطالعہ كے پهيلاوٴ كا پتا چلتا ہے۔ القول الجلي ميں مرقوم ہے كہ ابوحيان اندلسى جب پہلى مرتبہ امام كى خدمت ميں گئے تو دورانِ گفتگو ميں ان كى فراوانى معلومات سے ورطہ حيرت ميں ڈوب