کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 209
بوقلموں فنون اور نوع بنوع علوم ميں ان كى وسعت ِنظر كا يہ عالم تهاكہ ان كے اَقران ومعاصرين اس كا اعتراف كرنے پر مجبور تهے، حالانكہ معاصرت ايك نہايت خطرناك زہر ہے اور يہ زہر جس شخص كے قلب و ذہن ميں سرايت كرجائے، اسے احقاقِ حق اور اپنے معاصر كے بارے ميں صدقِ مقال سے محروم كرديتا ہے۔ ليكن امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ كے معاصرين نے ان كے علوم و معارف كى ہمہ گيريوں كا صاف لفظوں ميں اقرار كيا۔ ان كے معروف حريف علامہ كمال الدين زملكانى تهے، جو امام سے بہت سے معاملات ميں شديد اختلاف كے باوصف واضح پيرايہ بيان ميں ان كى تعريف كرتے ہيں ۔ اس ضمن ميں الكواكب الدريم في مناقب الامام المجتهد شيخ الاسلام ابن تيمية ميں ان كے الفاظ لائق ِتذكرہ ہيں ۔ وه لكہتے ہيں :
قد ألان الله له العلوم كما ألان لداوٴد الحديد۔ كان إذا سئل عن فن من العلم ظن الرائي والسامع أنه لا يعرف غير ذلك الفن وحكم أن أحدا لايعرفه مثله، وكان الفقهاء من سائر الطوائف إذا جلسوا معه استفادوا في مذاهبهم منه مالم يكونوا عرفوه قبل ذلك۔ ولا يعرف أنه ناظر أحدا فانقطع منه ولا تكلم في علم من العلوم سواءً كان من علوم الشرع أو غيرها إلا فاق فيه أهله والمنسوبين إليه۔ وكانت له اليد الطولى في حسن التصنيف
يعنى ”الله تعالىٰ نے ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ كے ليے تمام علوم كو اس طرح سہل اور آسان كرديا تها، جس طرح حضرت داوٴد عليہ السلام كے ليے لوہے كو نرم اور گداز فرما ديا تها۔ جس علم كے متعلق ان سے سوال كيا جاتا، اس انداز سے جواب ديتے كہ ديكهنے اور سننے والا يہ خيال كرتا كہ اس فن كے سوا يہ اور كچھ نہيں جانتے اور دل ميں يہ فيصلہ كرتا كہ كوئى اور شخص ان كى طرح اس فن ميں عبور اور مہارت نہيں ركهتا۔ جب بهى كسى مسلك ِفقہ كے شناور ان كى مجلس ميں شريك ہوتے تو كوئى نہ كوئى ايسا نكتہ ان كے احاطہ علم ميں ضرور آتا، جس كا اس سے پہلے انہيں علم نہ ہوتا تها۔ ايسا كبهى نہيں ہوا كہ انہوں نے كسى سے مجلس ِبحث و مناظرہ گرم كى ہو اور اس كے سامنے وہ لاجواب ہوگئے ہوں ۔ جب بهى انہوں نے علومِ شرعيہ يا ديگر علوم كے بارے ميں كوئى گفتگو كى تو ہميشہ ان علوم كے ماہرين اور ان سے انتساب ركهنے والوں سے آگے كى بات كى۔ ان كا تصنيف و تاليف كا سلسلہ نہايت خوب صورت تها اور اس ميں انہيں مہارتِ تامہ حاصل تهى۔“