کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 208
اسى طرح اقليم ِسيف و سنان پربهى ان كا سكہ رواں تها اور ان سب كو ان كى اطاعت گزارى پر فخر تها۔ مختلف علوم ان كے سامنے قطار بناكر كهڑے رہتے، جب كسى موضوع پرگفتگو كرنا مقصود ہوتا تو متعلقہ علم اپنى ہمہ گيريوں كے ساتھ كورنش بجا لاتا ہوا ان كى بارگاہ فضيلت ميں حاضر ہوجاتا اور جب كسى مسئلے كو ضبط ِتحريرميں لانے كا قصد كرتے تو اشہبِ قلم تيزى كے ساتھ صفحاتِ قرطاس پر دوڑنے لگتا اور پهر آناً فاناً معلومات كا مینہ برسنا شروع ہوجاتا اور پورى روانى كے ساتھ مرتب شكل ميں پُرمعانى الفاظ كاغذ پر بكهرتے چلے جاتے۔ وہ دجلہ و فرات كے سنگم ميں پيدا ہوئے تهے اور ان دونوں درياوٴں كى روانى ان كے قلم اور زبان ميں سمٹ آئى تهى۔
جن حضرات كو امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ كى تصانيف و تحريرات سے براہ راست استفادے كا موقع نہيں ملا، ان كے سامنے امام كے مصنفانہ كمالات كى تصوير كشى مشكل ہے۔ يوں سمجهيے كہ ان كے كلام ميں دريا كى روانى، آگ كے شعلے، شير كى گرج، مجاہد كى يلغار، فن كار كے نغمے كا اثر وسحر، پهولوں كى نزاكت ومہك، شاعر كے احساسات، عابد وزاہد كا اخلاص، محدث كى دقت ِنظر اور محقق كى فيصلہ كن راے وقار و تمكنت كے ساتھ جمع ہيں ۔
ذہانت و جامعيت
اللہ تعالىٰ نے حضرت امام كو اوائل ِشباب ہى ميں ذہانت اور جامعيت كى متاعِ گراں بہا سے نواز ديا تها۔ ان كے نامور شاگرد حافظ ابن كثير رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس استاد عالى قدر كے درسِ اوّل كا تذكرہ كرتے ہوئے ’البدايہ والنہايہ‘ ميں رقم قطراز ہيں :
وكان درسا هائلا وقد كتبه الشيخ تاج الدين الفزاري بخطه لكثرة فوائدة وكثرة ما استحسنه الحاضرون وقد أطنب الحاضرون في شكره على حداثة سنه وصغره فإنه كان عمره إذ ذاك عشرين سنة وسنتين
يعنى ” امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ علیہ كا پہلا درس ايك حيرت انگيز درس تها،جس كے كثرتِ فوائد اور لوگوں كى بہ درجہ غايت دلچسپى كى بنا پر شيخ تاج الدين فزارى نے اسے قلم بند كيا۔ امام ممدوح كى كم عمرى اور عہد ِجوانى كى وجہ سے حاضرين نے اس درس كى بے حد تحسين كى اوردل كهول كر انہيں داد دى۔ اس وقت امام كى عمر صرف بائيس برس كى تهى۔“