کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 206
ہے بلكہ آپ دينا چاہيں بهى تو ليتا كوئى نہيں ۔ جاپان ميں كم از كم ان گناہ گار آنكھوں كو تو ايك گداگر بهى نظر نہيں آيا۔ غيرت شايد اسى چيز كا نام ہے۔ افسوس كہ يہ نہ صرف تيمور كے گهر سے رخصت ہوئى بلكہ اسلامى دنيا كے بيشتر حصے سے بوريا بستر لپيٹ گئى۔ فرانس كے نظامِ تعليم كى نماياں خصوصیت وہاں كے عظيم سكول ہيں جن ميں داخلہ قومى سطح پر منعقد ہونے والے مقابلہ كے امتحان كے ذريعہ ہوتا ہے۔ جو خوش قسمت داخل ہوجاتے ہيں انہيں تين سے پانچ سال تك وہاں خوب رگيدا جاتاہے۔ كامياب ہوكر جو نكلتے ہيں وہ ايسے گوہر تابدار ہوتے ہيں جنہيں بے شمار ادارے ماتهے كا جهومر بنانے كيلئے بے تاب ہوتے ہيں ۔ اس دوڑ ميں ہم كہاں ہيں ؟ نكتہ آغاز سے بهى پیچھے بلكہ مسلسل پھسلتے ہوئے… ہر لمحہ منزل ہم سے دور بهاگتى ہوئى۔ ادارے تو كافى ہيں ؛ معيار نہ ہے، نہ اس كى فكر ہے۔ خود غرضى كى چادر اوڑهے سب محو ِخواب ہيں ۔ سرسيد سے كہو قبر سے اُٹهے اور ان گراں خوابوں كو جگائے۔ يہ بهارى پتهر ان سے بهى اكیلے شايد نہ اٹهايا جاسكے۔ قافلہ عشاق كى ضرورت ہوگى جس ميں آپ كو مجهے اور سب كو شامل ہونا پڑے گا۔ ياد رہے كہ قائداعظم نے كہا تها كام كام اور كام۔ دورِ حاضر كا تقاضا ہے كہ تقدير بنانا ہے تو تعليم، تعليم اور تعليم پر تمام تر توجہ اور وسائل مركوز كرديں ۔ تعليم كے فروغ كے ليے ان قوموں كے تعلیمى رجحانات ہمارے ليے ايك درخشندہ مثال كى حيثيت ركهتے ہيں ، اگر مسلمان اپنى كهوئى منزل حاصل كرنا چاہتے ہيں تو انہيں اپنے اسلاف كى ميراث اور علوم كا احيا كرنا ہوگا جو ان سب سے بڑھ كر علوم كے والہ وشيدا تهے ، انهوں نے تحصيل علم كے ليے ميلوں سفر طے كيا اور مسلمانوں كو علم و تحقیق سے مالا مال ايك قوم بنا ديا۔