کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 199
1925ء كو اس كا باقاعدہ آغاز كرديا گيا۔
يہ جامعہ قيامِ ’اسرائيل‘ كے لئے اہم ترين پيش رفت تهى۔ اس ادارے ميں وہ انسان ڈهالے جاتے تهے جو آئندہ قائم ہونے والى رياست كو مكمل نظرياتى ہم آہنگى اور پيشہ ورانہ مہارت سے چلا سكيں ۔ عبرانى زبان كو از سر نو زندہ كركے تمام علوم كے لئے اسے ذريعہ تعليم قرار ديا گيا تاكہ نئى نسل علوم و فنون كى روح تك پہنچ سكے اور غير زبان سيكهنے كى اضافى محنت كے علاوہ ہر طرح كى بيرونى تہذيب سے بهى ’محفوظ‘ رہ سكے۔ اس مقصد كے لئے اساتذہ نے اپنى زندگياں وقف كرديں ۔ ايسے ايسے اساتذہ جنہيں يورپ كى جامعات ميں لاكهوں ڈالر كا مشاہرہ مل سكتا تها، يہاں ايك مزدور كے برابر معاوضہ پرپڑهاتے رہے۔
يہاں كے طالب علم دنيا سے نرالے تهے كہ انہيں چهٹى كے لمحات گراں گزرتے۔ جو لمحہ تعليم و تربيت سے دور گزرتا، ان كے لئے احساسِ جرم كا باعث ہوتا، يہ احساس كچوكے لگاتا كہ ہم مستقبل كى نسل اور ’عظيم تر اسرائيل‘كے حصول كے مبارك مقصد سے غدارى كر رہے ہيں اوراپنا فرض پورا نہيں كرپارہے۔ اس جامعہ كے اساتذہ اور طلبہ كى محنت كو ديكھ كر كئى ماہرين تعليم نے اس خدشہ كا اظہار كيا كہ انسانى برداشت سے اس قدر زيادہ كام لينے سے نتائج مثبت كى بجائے منفى نكل سكتے ہيں … اور نتائج منفى ہى نكلے ليكن مخالفين كے لئے…!!
جب 1948ء كو ’اسرائيل‘ كے قيام كا اعلان كيا گيا تو رياست كے ہر شعبے كو سنبهالنے كے لئے ماہر ترين افراد كى فوج موجود تهى، ايسے ماہرين جو اپنے فن كے ماہر اور اپنى رياست كے نظريہ كے عاشق تهے۔
’اسرائيل‘ كے قيام كے اعلان كے ساتھ وہى ہوا جس كا اندازه تها۔ پورى دنيا كے انصاف پسند ممالك نے اس دهاندلى اور ظلم كى مخالفت كى۔ پاس پڑوس كے عرب ممالك اس پر چڑھ دوڑے اور اسلامى ممالك نے اسے تسليم كرنے سے انكار كرديا۔ ايسے حالات ميں جبكہ ہر ہمسايہ دشمن تها اور قيام كے پہلے دن سے لڑائى جارى تهى، ايك نومولود رياست كا قائم رہنا صرف اس لئے ممكن ہوسكا كہ ہر چيز كى تيارى پہلے سے كرلى گئى تهى، ہرامكان پر كئى كئى مرتبہ سوچا گيا تها او رہر محاذ پر مقابلہ كے لئے انتہائى ماہر افراد كى تيارى كا كام رُبع صدى سے جارى تها۔ اس لئے’اسرائيل‘ نے نہ صرف سرحدوں پر جارى ہر جنگ جيتى بلكہ حقيقت يہ ہے كہ سفارت سے صحافت اور تجارت سے تشخص تك، ہر محاذ پركاميابى حاصل كى ليكن بدقسمتى يہ تهى كہ اس سارى كاميابى كو ممكن بنانے والا ادارہ’ جامعہ عبرانيہ‘ اب دشمن كے علاقے ميں تها!!!
اگر جامعہ على گڑھ اور جامعہ عثمانيہ قائم نہ ہوتيں تو قيام پاكستان كا سوچا بهى نہ جاسكتا۔ يہ