کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 196
٭ اور پهر پرنسپ كے بقول فارسى اور عربى كے بارے ميں مدرسہ ميں جو حكمت ِعملى زير كار ہے، اس كى رُو سے جديد علوم و فنون كو ان كتب ِنصاب ميں موزوں پيوندكارى كے ذريعے سے بتدريج مطلوبہ سطح تك لانا ہے۔ عربى فارسى اور سنسكرت زبانيں مسلمانوں اور ہندووٴں كے لئے اسى طرح ہيں جس طرح لاطينى اور يونانى زبانيں يوروپين اقوام كيلئے تہيں ۔ ٭ روس كى مثال پر تبصرہ كرتے ہوئے پرنسپ نے بڑى لاجواب بات كہى۔ ان كے خيال ميں يہ مثال غيرمتعلق ہے۔ يہ مثال صحيح جب تهى كہ روس ميں جرمنى زبان ہى لازمى قرار دے دى جاتى اور وہاں كى زبانوں كو ديس نكالا دے دياجاتا۔ ظاہر ہے كہ روس ميں جرمنى يا كسى اور ملك كى زبان تدريس كا واحد ذريعہ كبهى نہيں رہى۔ ٭ پرنسپ نے ميكالے كى اس ناقابل فہم منطق پر بهى حيرت كا اظہار كيا ہے كہ ہندوستان جيسے مذہبى ملك ميں مسلمانوں كو عربى اور ہندووٴں كو سنسكرت سے رغبت نہيں ۔ اس ميں غالباً سنسكرت كى حدتك ميكالے نے راجہ رام موہن رائے كے خيالات كا سہارا ليا ہے۔ پرنسپ نے مسلمانوں كى دينى عصبیت كا حوالہ ديتے ہوئے كہا كہ انہوں نے انگريزى صرف اس وقت پڑهنے كى حامى بهرى تهى جب مولانا عزيز الدين دہلوى نے اس كے جواز كا فتوىٰ ديا تها۔ ان كے خيال كے مطابق مسلمان اپنى روايات اور دين كے بارے ميں ہندووٴں كے مقابلے ميں بہت ہى زيادہ پختہ ہيں ۔ مدرسے كو بند كردينے سے ان كى ’دينى غيرت‘ كو چيلنج كرنا ہوگا اور پهر يہ عجیب بات ہے كہ ہم ان كتابوں كے بارے ميں فيصلہ كررہے ہيں جن كى زبانوں ہى سے ہم محض نابلد ہيں ۔ اس كا خود ميكالے اعتراف كرتے ہيں ۔ چاہئے تو يہ تها كہ متّفقين كى كميٹياں مقرر كى جاتيں اور ان لوگوں كو اعتماد ميں ليا جاتا جن كے لئے ہم كوئى تعليمى نظام نافذ كرنا چاہتے ہيں ۔ ذريعہ تعليم، نصاب ميں مشرقى اور مغربى علوم كا حسين امتزاج، كتابوں كى طباعت اور اشاعت كا بہتر طريق انہى كے مشورے سے طے پاتا۔ رعايا كى خوشنودى اور دل جوئى كرنے والى سلطنت ِبرطانيہ كے اراكين كو عجلت سے فيصلہ نہيں كرنا چاہئے اور جو فيصلہ كياجاچكاہے، اسے كم از كم ملتوى كردياجائے۔ نتيجہ: بڑى ردّ و قدح كے بعد 11/اپريل 1835ء كو جنرل كميٹى برائے پبلك انسٹركشن