کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 195
ہيں ۔ اس سے سيدها سادا مطلب يہ نكلتاہے كہ يہ وہ علوم ہيں جو مصر كے اداروں ميں زير تدريس ہيں اور مسلمان عربوں كے برپا كئے ہوئے عالمى علمى انقلاب كا نتيجہ ہيں ۔
جبكہ تمدنِ عرب كے مصنف گستاولى بان كے نزديك ان كى اہميت يہ ہے كہ پانچ سو سال تك يورپ كى يونيورسٹياں انہى علوم كے سہارے جيتى رہى ہيں ۔ رابرٹ بريفالٹ كے قول كے مطابق مسلمانوں نے ہى عالم انسانيت پرجديد سائنسى تحقیقات كے دروازے كهولے ہيں ۔
٭ اسى طرح ہندوستان كے ہندووٴں اور مسلمانوں نے ان اداروں كے لئے جو املاك وقف كى ہيں ، انہيں انہى مقاصد ميں صرف كرنا ضرورى ہے،كيونكہ شرط الواقف كنص الشارع۔ يہ موقوفہ جائيداديں لاكهوں روپے كى ہيں جنہيں مخير لوگوں نے محض اغراضِ تعليمى كے لئے وقف كياہے۔ انہيں حكومت ’اپنى صوابديد‘ كے مطابق خرچ نہيں كرسكتى۔ كيا انگلستان كى يونيورسٹيوں كے لئے املاكِ موقوفہ حكومت ِانگلستان كسى اور مصرف ميں لاسكتى ہے؟
٭ ميكالے كا وظائف كااعتراض بهى پرنسپ كے بقول غلط ہے كيونكہ وظائف صرف قابل اورمستحق طلبا كو ديے جاتے ہيں اور طلبا كى يہ تعداد اداروں كى مجموعى تعداد كا تہائى حصہ سے زيادہ نہيں بنتى اور ايسے تعليمى وظائف آج تك فروغ تعليم كے لئے جديد يونيورسٹيوں ميں بہى ديے جاتے ہيں ۔ اس سے ميكالے كے مفروضہ اعدادوشمار كى وقعت ختم ہوجاتى ہے جس پر اس نے ايك بے سروپا اضافہ گهڑ ليا۔
٭ جن كتابوں كى طباعت اور اشاعت كا ہنگامہ برپاكيا گيا ہے، وہ جيوميٹرى، ٹريگنوميٹرى، ہٹن كا نصابِ رياضيات ، فتاوىٰ عالمگيرى، كراكر، ہوپر اور برج كا الجبرا، مہابهارت جيسى درسى كتابيں ہيں ۔ معلوم ہوتا ہے كہ ميكالے كو كتب نصاب كى پورى طرح پڑتال كا موقع بهى نہيں ملا،ورنہ اسے بآسانى معلوم ہوسكتا تها كہ ان كتابوں كے ذريعے سے بڑى خوبى سے مشرقى علوم ميں مفيد مغربى علوم كا امتزاج كياجارہا تها اور اس تحريك ميں كميٹى كو صحيح الفكرہندوستانيوں كا تعاون بهى حاصل تها۔ اس نظامِ كار ميں ايسى بہ عجلت تبديلى سے ”ہندوستانيوں كو ہم پر جو اعتماد ہے، اسے غير معمولى ٹھیس پہنچے گى۔“ پرنسپ نے اس پر خصوصى توجہ دلائى۔