کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 192
ٴ كروں گا جو جائز طور پر مالى اعانت كے مستحق ہيں ۔ليكن ميں اس نظام ناكارہ كو جڑ سے اُكهاڑ دينا چاہوں گا جسے ہم نے ابهى تك سينے سے چمٹا ركهاہے۔ ميں فى الفور عربى اور سنسكرت كى كتابوں كى طباعت روك دوں گا۔ ميں كلكتہ كے مدرسے اور سنسكرت كالج كو ختم كردوں گا۔ بنارس برہمنى تعليم كا بڑا مركز ہے اوردلّى عربى تعليم كا۔ اگر ہم ان دونوں ہى كو جارى ركهيں تو ’السنہ شرقيہ‘ كے فروغ كے لئے كافى ہے بلكہ ميرے خيال ميں كافى سے زيادہ ہے۔ اگربنارس اور دلّى[1] كے كالجوں كو برقرار ركهنا ہو تو ميرى كم سے كم يہ سفارش ہوگى كہ ان ميں داخلہ لينے والے كسى طالب علم كو وظیفہ نہ ديا جائے،بلكہ لوگوں كو دو حريف نظام ہائے تعليم ميں سے كسى ايك كے انتخاب كى پورى آزادى ہو۔ ہم كسى طالب علم كو بهى رشوت دے كر اس علم كى تحصيل پر آمادہ نہ كريں جس كے حاصل كرنے كا وہ خود خواہشمند نہ ہو۔ اس طريق كار سے جو رقم ہميں دستياب ہوگى اس كى مدد سے ہم اس حيثيت ميں ہوں گے كہ ہندو كالج كلكتہ كى وسيع تر اعانت كرسكيں اور فورٹ وليم[2]اور آگرہ كى پريذيڈنسيوں كے بڑے بڑے شہروں ميں ايسے مدارس قائم كرسكيں ،جہاں انگريزى زبان كى تدريس كا اچها اور مكمل انتظام ہو۔ اگر ہزلارڈ شپ اِن كونسل (عزت مآب گورنر جنرل اِن كونسل) كا فيصلہ وہى ہو، جس كى ميں پيش بينى كررہا ہوں تو ميں اپنے فرائض كى ادائيگى ميں كمال انہماك اور بڑى مستعدى سے سرگرمِ عمل ہوجاوٴں گا۔ برخلاف ازاں اگر حكومت كى رائے موجودہ نظام كو بلاردّ و بدل جوں