کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 191
نصف عرصے ميں ايك ہندو نوجوان ہيوم[1] اور ملٹن كا مطالعہ كرسكتا ہے۔ خلاصہ : جو كچھ ميں نے اب تك كہا ہے اس كا ملخص يہ ہے كہ ميرا خيال ہے كہ يہ ايك واضح بات ہے كہ ہم پارليمنٹ ايكٹ 1813ء كے پابندنہيں ہيں ، نہ ہى كسى ايسے معاہدے كے جو ہم نے اس خصوص ميں صراحتاً كيا ہو يا كنايتہ اور يہ كہ ہم زير بحث رقوم كو اپنى صوابديد كے مطابق استعمال كرنے ميں آزاد ہيں اور يہ كہ ہميں اس فنڈ كو اس علم كے حصول ميں صرف كرنا چاہئے جو بہترين طور پر شايانِ مطالعہ ہو اور يہ كہ انگريزى زبان، عربى اور سنسكرت كے مقابلے ميں مطالعہ كے لئے موزوں تر ہے اور يہ كہ خود ہندوستانى لوگ انگريزى زبان سيكهنے كے خواہش مند ہيں اور انہيں عربى يا سنسكرت سيكهنے كى كوئى طلب نہيں اور يہ كہ نہ تو قانونى زبان كى حيثيت سے اور نہ مذہبى زبان كے لحاظ سے سنسكرت يا عربى زبان كو ہمارى خصوصى ہمت افزائى كا كوئى استحقاق ہے اور پهر يہ كہ يہ عين ممكن ہے كہ اس ملك كے باشندوں كو اچهے انگريزى اسكالر بنايا جاسكے اور اس مقصد كے حصول كے لئے ہميں اپنى پورى مساعى بروے كار لانى چاہئيں …!! ہمارا مقصد كيا ہونا چاہئے؟ البتہ ايك نقطے پر ميرا ان حضرات سے پورا پورا اتفاق ہے جن سے ميں نے اس مسئلے ميں مخالفت كى ہے۔ اس احساس ميں مَيں ان كے ساتھ برابر كا شريك ہوں كہ ہمارے لئے فى الحال اپنے محدود وسائل كے سبب سب لوگوں كى تعليم كے لئے كوشش كرنا ناممكن ہے۔ فى الوقت ہمارى بہترين كوششيں ايك ايسا طبقہ معرضِ وجود ميں لانے كے لئے وقف ہونى چاہئيں جو ہم ميں اور ان كروڑوں انسانوں كے مابين جن پر ہم حكومت كررہے ہيں ، ترجمانى كا فريضہ سرانجام دے۔ يہ طبقہ ايسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ و نسل كے لحاظ سے تو ہندوستانى ہو، ليكن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم و فراست كے اعتبار سے انگريز۔ اور پهر اس طبقے كے كاندهوں پر يہ ذمہ دارى ڈالى جائے كہ وہ ملكى ديسى زبانوں كى اصلاح كرے، مغربى ممالك ميں مروّجہ سائنسى اصطلاحات ميں اضافہ كرے اور پهر بتدريج انہيں اس قابل بنا دے كہ وہ ملك كى عظيم آبادى پر علوم و فنون كے خزانوں كے دروازے كهول ديں ۔ ميں موجودہ میسرمفادات كا احترام كروں گا۔ ميں ان تمام افراد كے ساتھ فياضانہ برتاو