کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 185
جارہى ہے، 500 روپے ماہوار سے زيادہ ہے۔ دوسرى جانب حساب كى يہ مد بهى ہے۔
مبلغ 103 روپے جوگذشتہ مئى، جون اور جولائى ميں فارغ شدہ انگريزى طلبا سے وصول ہوئے، مجموعى رقم سے منہا كئے جائيں ۔
مجهے كہا جاتا ہے كہ مقامى حالات كا تجربہ نہ ہونے كى وجہ سے ميں ان امور كو بنظر استعجاب ديكھتا ہوں اور يہ كہ ہندوستانى طلبا ميں ذاتى اخراجات سے علم حاصل كرنے كا رواج نہيں ہے۔ اس رائے سے ميرے نظريات كو اور پختگى ملى ہے۔ اس سے زيادہ يقينى كوئى بات نہيں ہے كہ دنيا كے كسى حصے ميں بهى لوگوں كو ان كاموں كے لئے كچھ نہيں اداكرنا پڑتا ہے جنہيں وہ خوشگوار يا نفع آور سمجهتے ہيں ؛ اس سے ہندوستان بهى مستثنىٰ نہيں ہے۔ يہاں كے لوگوں كو جب بهوك ستائے اور وہ چاول كهائيں تو انہيں كچھ بهى ادا كرنے كى ضرورت نہيں ہوتى۔ اور نہ ہى اس صورت ميں كہ وہ موسم سرما ميں اونى كپڑے پہنيں ، انہيں كوئى وظيفہ ديا جاتا ہے۔
بچے جو گاوٴں كے مدرسے ميں استاد سے حروفِ تہجى ياتهوڑى بہت رياضى سيكهتے ہيں ، انہيں استاد كو بهى كچھ نہيں ادا كرنا پڑتا۔ استاد كو پڑهانے كى تنخواہ ملتى ہے۔ تو پهر جو لوگ سنسكرت اور عربى پڑهتے ہيں ، انہيں مالى اعانت دينے كا كيا جواز ہے ؟
مشرقى علوم اپنے سيكهنے والے كى كفالت نہيں كرتے!
يہ امر صريحاً بلاجواز ہے كيونكہ يہ سب لوگ محسوس كرتے ہيں كہ سنسكرت اور عربى وہ زبانيں ہيں جن كا علم اس مشقت كى تلافى نہيں كرتا جو ان كے حصول ميں صرف ہوتى ہے۔ ايسے تمام مباحث ميں منڈى يا ماركيٹ كى مانگ ہى فيصلہ كن ہوتى ہے۔ اس خصوص ميں اور شہادتوں كى بهى كمى نہيں ہے۔ مزيد ضرورت ہو تو وه بهى پيش كى جاسكتى ہيں ۔
گذشتہ سال سنسكرت كالج[1] كے كئى سابق طلبا نے كميٹى كو ايك درخواست دى۔ اس ميں بيان كيا گيا كہ انہوں نے كالج ميں دس يا بارہ سال تعليم حاصل كى۔ انہوں نے ہندو ادبيات