کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 184
تيارنہيں ہوں كہ جب ايك اعلىٰ ذہنى صلاحيتوں كى حامل قوم كسى ايسى قوم كى تعليمى نگرانى كا بيڑا اٹهائے جو مقابلةً بے علم ہو تو متعلّمين سے توقع كى جائے كہ وہ قطعيت كے ساتھ وہ نصاب ونظام تعليم تجويز كريں جو اُن كے معلّمين اختيار كريں ۔ بايں ہمہ اس موضوع پر مزيد كچھ كہناغير ضرورى ہے، كيونكہ يہ امر ناقابل انكار شہادتوں سے پايہٴ ثبوت كو پہنچ گيا ہے كہ ہم فى الوقت ملكيوں كا تعاون حاصل نہيں كررہے ہيں ۔ يہ بات تو بڑى بُرى ہوگى، اگر ہم ان كى ذہنى صحت كى قيمت پر ان كے ذہنى ذوق كى تسكين كا سامان كريں ۔ ليكن موجودہ حالات ميں تو ہم دونوں ميں سے كسى كى طرف بهى رجوع نہيں كررہے ہيں ، ليكن ہم ان پر ان كى اس تعليم كے دروازے ہى بند كررہے ہيں جن كے وہ متمنى ہيں ۔ ہم ان پر وہ مضحكہ خيز تعليم ٹهونس رہے ہيں جو انہيں بے حد ناپسند ہے۔ يہ ايك مسلمہ حقيقت ہے كہ ہم مجبور ہيں كہ عربى اور سنسكرت كے طالب علموں كو وظائف ديں ، درآں حالے كہ انگريزى كے طلبا ہميں فيس اداكرنے پر آمادہ ہيں ۔ مشرقى علوم پرتعليمى وظائف كيوں ؟ اہل ملك كى اپنى مقدس مادرى زبانوں سے محبت اور احترام پر مہيا دنيا بهر كے جذباتى اظہارات بهى ايك غير جانبدار انسان كى نظروں ميں اس غير مختلف فيہ حقيقت كوبے وزن نہيں كرسكتے كہ ہم اپنى وسيع سلطنت ميں كوئى ايك طالب علم بهى نہيں ڈهونڈ سكتے جووظيفے لئے بغير ہم سے يہ زبانيں سيكهنے كے لئے تيار ہو۔ كلكتے كے مدرسے[1] كا ايك ماہ كا گوشوارہ حسابات ميرے سامنے ہے۔ يہ ماہ دسمبر 1833ء ہے۔ عربى كے طلبا كى تعداد 77 ہے، يہ تمام كے تمام وظيفہ خوار ہيں ۔ مجموعى رقم جو ادا كى