کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 181
پڑهانے كا اختيار ہے تو كيا پهر بهى ہم ان زبانوں كى تدريس كى ذمہ دارى قبول كريں گے جن كے بارے ميں يہ امر مسلّمہ ہے كہ ان ميں سے كسى موضوع پر بہى كوئى كتاب اس معيار كى نہيں ہے كہ اس كا ہمارى كتابوں سے موازنہ كياجاسكے؟ آيا جب ہم يورپين سائنس كى تدريس كاانتظام كرسكتے ہيں تو كيا ہم ان علوم كى بهى تعليم ديں گے جن كے بارے ميں عمومى اعتراف ہے كہ جہاں ان علوم ميں اور ہمارے علوم ميں فرق ہے تو اس صورت ميں ان علوم ہى كا پايہ ثقاہت پست ہوتا ہے؟ اور پهر يہ بهى كہ آيا ہم جب پختہ فكر فلسفہ اور مستند تاريخ كى سرپرستى كرسكتے ہيں تو پهر بهى ہم سركارى خرچ پر ان طبى اُصولوں كى تدريس كا ذمہ ليں جنہيں پڑهانے ميں ايك انگريز سلوترى بهى خفت محسوس كرے؟ ايسا علم فلكيات پڑهائيں جن كا انگريزى اقامتى اداروں كى چهوٹى چهوٹى بچياں بهى مذاق اُڑائيں ؟ ايسى تاريخ پڑهائيں جس ميں تيس تيس فٹ قدآور بادشاہوں كے من گهڑت قصے ہوں ، اور جو تيس تيس ہزار سال تك حكمرانى كرتے رہے ہوں ؟ اور ايسے جغرافیے كى تدريس كريں جس ميں پودوں اور درختوں كى راب، رس اور مكھن كے سمندروں كى بے سروپا حكايتيں ہوں ۔ اس مسئلہ پر غوروفكر ميں ہم نے حيات ِ انسانى كے سابقہ تجربات سے رہنمائى حاصل كى ہے۔ تاريخ ميں اس سے ملتى جلتى كئى مثاليں موجود ہيں اور ان سب سے يہى سبق ملتا ہے۔ ہم ماضى كے دہندلكوں ميں كيوں جائيں ، دور حاضر ميں ہى يونيورسٹيوں كى سطح پر بجز اينگلو سيكسن كہانيوں اور افسانوں اور نارمن فرانسيسى رومانى قصوں كے نہ تو كچھ پڑهاتے اور نہ شائع كرتے تو كيا ادبيات اس مقام پر فائز رہ سكتى تهى؛ جس پر وہ آج فائز ہے ؟ اگر بنظر غائر ديكهاجائے تو جو حيثيت يونانى اور لاطينى زبانوں كى مور[1]اور اسيچم [2]كے ہم عصروں كے سامنے تهى، عين وہى حيثيت آج ہمارى زبان كى ہندوستان كے لوگوں كے سامنے ہے۔ دقيانوسى، قديم كلاسیكى ادب كے مقابلے ميں آج انگريزى ادب زيادہ گراں پايہ