کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 179
سرمايہٴ علمى پر بهارى ہيں ۔ پهر مغربى تخلیقاتِ ادب كى منفرد عظمت كے كماحقہ معترف توكميٹى كے وہ اراكين بهى ہيں جو مشرقى زبانوں ميں تعليم كے منصوبے كى حمايت ميں گرم گفتار ہيں ۔
ميرا خيال ہے كہ اس حقيقت كو ماننے ميں كسى كو تامل نہيں ہوگا كہ شاعرى ادب كى وہ صنف ہے جس ميں مشرقى قلم كاروں كو اعلىٰ ترين مقام حاصل ہے۔ ليكن يقين مانئے مجهے كوئى بهى ايسا مستشرق نہيں ملا جس نے يہ دعوىٰ كرنے كى جسارت كى ہو كہ عربى اور سنسكرت كے شعرى سرمائے كا عظيم يورپين اقوام كى تخليقات ِ شعرى سے مقابلہ كيا جاسكتا ہے۔
جب ہم مشرقى شعرى ادبيات كے دائرۂ تخيلات سے باہر ان فن پاروں پرنظر ڈالتے ہيں جن كى اساس زندگى كے ٹهوس حقائق ہيں اور جن ميں تجربے اور مشاہدے كى روشنى ميں عام اُصولوں كى چهان پهٹك ہوتى ہے تو يورپ كى تخليقات ِعلمى كى فضيلت ِبے پاياں كا صحيح اندازہ ہوتا ہے۔
مجهے يقين ہے كہ يہ كہنا مبالغہ نہ ہوگا كہ تاريخى معلومات كا وہ ذخيرہ جو سنسكرت ميں لكھى ہوئى تمام كتابوں ميں موجود ہے، انگلستان كى ابتدائى درس گاہوں ميں زير استعمال تشنہ صلاحيتوں ميں شامل علمى مواد سے بهى قدرو قيمت كے لحاظ سے فروتر ہے۔ فلسفہ طبيعات يا اخلاقيات كا كوئى شعبہ لے ليجئے، دونوں قوموں كى متناسب تقابلى علمى كيفيت كم و بيش يہى ہوگى۔
جديد تقاضوں پر پورا اُترنے والى واحد زبان انگريزى ہے!
ان حقائق كى رُو سے اصل صورتِ حالات كيا ہوئى؟ ہميں ايك ايسى قوم كو زيورِ تعليم سے آراستہ كرنا ہے جسے فى الحال اپنى مادرى زبان ميں تعليم نہيں دى جاسكتى۔ ہميں اُنہيں لازماً كسى غيرملكى زبان ميں تعليم دينا ہوگى۔ اس خصوص ميں ہمارى اپنى مادرى زبان كے استحقاق كا اعادہ تحصيل حاصل ہے۔ ہمارى زبان تو يورپ بهر كى زبانوں ميں ممتاز حيثيت كى حامل ہے۔ يہ زبان قوتِ متخیلہ كے گراں بہا خزانوں كى امين ہے۔ جن كا پايہ يونان كے مہتم بالشان علمى كارناموں [1]،[2] سے جو ہميں ورثہ ميں ملے ہيں ، كسى طرح بهى پست نہيں ہے۔اس زبان ميں متنو ع انداز ِ طلاقت ِ لسانى و خطبات كى مثاليں مہيا ہيں ۔ تاريخى تصانيف جنہيں محض افسانہ سرائى اور