کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 178
دائرۂ اختيار ميں ہے كہ وہ ہندوستانى ذخائر علمى ميں ترقى كے لئے اپنى صوابديد كے مطابق مناسب طور پر خرچ كريں ۔ ميرا موقف يہ بهى ہے كہ امارت مآب بالكل اسى طرح يہ حكم دينے كے مجاز ہيں كہ آئندہ كوئى رقم عربى و سنسكرت كے علوم كى حوصلہ افزائى كے لئے صرف نہ كى جائے۔ يہ بعينہ اسى طرح ہے كہ جس طرح وہ حكم نافذ كرديں كہ ميسور[1] ميں چيتے مارنے كا معاوضہ كم كرديا گيا ہے يا ايك كيتهڈرل ميں مذہبى نغمہ سرائى پر آئندہ سركارى طور پر كوئى رقم خرچ نہيں كى جائے گى۔
٭ اب اس مسئلے كے لب ِلباب كى طرف آئيں ۔ ہمارے پاس ايك ايسى رقم ہے جسے گورنمنٹ كے حسب ِہدايت اسى ملك كے لوگوں كى ذ ہنى تعليم و تربيت پر صرف كيا جانا ہے۔ يہ ايك بڑا سادہ سا سوال ہے كہ اس كا مفيد ترين مصرف كيا ہے ؟
مشرقى زبانيں علم سے تہى دامن ہيں !
يوں لگتا ہے كہ تمام مختلف الخیال لوگ اس بات پر متفق ہيں كہ ہندوستان ميں اس علاقے كے باشندے عام طور پر وہ مقامى زبانيں استعمال كرتے ہيں جو ادبى اور سائنسى معلومات سے تهى دست ہيں ۔ علاوہ ازيں ذخيرۂ الفاظ و اصطلاحات كے لحاظ سے اس قدر كم مايہ اور قوتِ اظہار كے اعتبار سے اس درجہ ناتراشيدہ ہيں كہ جب تك انہيں كسى ترقى يافتہ زبان سے تونگر نہيں بنا ديا جاتا،ان زبانوں ميں كسى قابل قدر علمى شاہكار كا ترجمہ كرنا سہل نہيں ہوگا۔ يہ لوگ اس حقيقت كے بهى معترف معلوم ہوتے ہيں كہ اس ملك كے اس طبقے كے لوگوں كى ذہنى تربيت كا انتظام جو اعلىٰ تعليم حاصل كرنے كى قدرت ركهتے ہيں ، صرف اس صورت ميں ممكن ہے كہ ان كى مروّ جہ مقامى بوليوں كى بجائے كسى باضابطہ زبان كو تعليم و تعلّم كا ذريعہ بنايا جائے۔ سوال پيدا ہوتا ہے كہ وہ زبان كون سى ہو؟
كميٹى كے پچاس فى صد اراكين مصر ہيں كہ يہ زبان انگريزى ہے۔ باقى نصف اراكين نے اس مقصد كے لئے كوئى ايسا شخص نہيں پايا ہے جو اس حقيقت سے انكار كرسكے كہ يورپ كى كسى اچهى لائبريرى كى المارى ميں ايك تختے پر ركهى ہوئى كتابيں ہندوستان اور عرب كے مجموعى