کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 176
معلوم ہوتے ہيں ۔ يہ ايك لاكھ روپيہ صرف ’ہندوستان ميں ادب كے احيا‘… يہ وہ جزوِ جملہ ہے جس پر ان كى تمام تشريحات كا دارو مدار ہے… كے لئے ہى مخصوص نہيں كيا گيا بلكہ اس كے ساتھ ساتھ يہ بهى مذكور ہے كہ حكومت ِبرطانيہ كے زيرنگيں علاقوں كے باشندوں ميں سائنسى علوم كے تعارف اور ترقى كے لئے بهى يہ رقم صرف كى جانا ہے۔يہى الفاظ اس امر كيلئے كفايت كرتے ہيں كہ ہم وہ تمام تبديلياں برپاكرنے كے مجاز ہيں ، جن كے لئے ميں جدوجہد كررہا ہوں ۔ اگر كونسل كے اراكين ميرے نقطہ نظر سے متفق ہيں تو اس خصوص ميں كوئى نيا ايكٹ وضع نہيں كرنا پڑے گا۔ اگر انہيں اختلاف ہے تو پهر ميں تجويز كروں گا كہ ايك مختصر سے ايكٹ كے ذريعے سے 1813ء كے چارٹر كى اس دفعہ كو منسوخ كرديا جائے جس سے يہ اُلجھن پيدا ہوئى ہے۔وہ دلیل جو ميرے ذہن ميں ہے، صرف كارروائى كى ہيئت پراثر انداز ہوگى۔ ليكن مشرقى طريق تعليم كے مداحين نے ايك اور دليل پيش كى ہے۔ جسے ہم صحيح تسليم كرليں تو وہ كسى بهى تبديلى كى متحمل نہيں ہے۔ ان كا خيال ہے كہ موجودہ طريقہٴ تعليم سے لوگوں كو اعتقادى وابستگى ہے اور يہ كہ اس رقم كے كسى بهى حصے كو (جو عربى اور سنسكرت كى حوصلہ افزائى كے لئے استعمال ہورہا ہے) كسى اور مصرف ميں لانا، اس رقم كا كهلا استحصال بالجبر ہے۔ ميں يہ سمجهنے سے قاصر ہوں كہ انہوں نے يہ نتيجہ كس منطقى طريق سے اخذ كيا ہے۔ درآنحاليكہ وہ گرانٹ جو خزانہٴ عامرہ سے ادبيات كى حوصلہ افزائى كے لئے دى جاتى ہے، اس گرانٹ سے جو رفاہ عامہ كے لئے خزانہ سے دى جاتى ہے، كسى طرح بهى مختلف نہيں ہے!! فرض كيجئے ہم نے ايك ہیلتھ سنٹر كى بنياد ايك ايسے مقام پر ركهى جسے ہم نے صحت بخش سمجھا تها، ليكن وہاں نتائج ہمارى توقع كے مطابق برآمد نہيں ہوئے تو كيا اس صورتِ حالات ميں ہم پابند ہيں كہ اس كى عدمِ افاديت كے باوجود اس صحت گاہ كو وہيں برقرار ركهيں ؟ يا ہم ايك ستون نصب كرنے كا آغاز كرتے ہيں اور تعمير كے دوران ميں كسى مرحلے پراگر يہ يقين كرنے كے وجوہ موجود ہوں كہ يہ تعمير بے فائدہ ہے تو كيا اس تعمير كو روك دينا، اعتمادِ ِعامہ كو ٹهيس پہنچانے كے مترادف ہوگا؟ حقوقِ ملكيت بلا شبہ قابل احترام ہيں ، ليكن ان حقوق كو كوئى امر اس سے زيادہ خطرے ميں نہيں ڈال سكتا، جس قدر يہ عام ناخوش گوار روش كہ انہيں اس شخص سے منسوب كرديا جائے