کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 175
كى شاعرى، لاك[1] كے فلسفہ ما بعد الطبيعات اور نيو ٹن[2]كى طبيعات سے واقف ہو۔بلكہ اس لقب سے وہ افراد مقصود ہيں جنہوں نے ہندووٴں كى مقدس كتب كُسّا گھاس كے استعمال كے تمام طريقوں اور ديوتائى گيان دهيان ميں مراقبے كے مخفى اسرار كا مطالعہ كرليا ہے۔محولہ بالا قانون كى يہ تعبير مجهے كچھ زيادہ تسلى بخش معلوم نہيں ہوتى۔ اس كے متوازى اسى قسم كا مسئلہ ليجئے۔ فرض كيجئے كہ بادشاہ مصر (ايك ملك جو كبهى يورپ بهر كى قوموں سے علمى عظمت ميں گوے سبقت لے گيا تها اور اب مرورِ زمانہ سے ان كے مقابلے ميں پسماندہ ہے) ايك رقم اس مقصد كے لئے مخصوص كرديں كہ اسے ادبيات كے احيا وترقى ميں خرچ كياجائے اور مصر كے اہل علم كى حوصلہ افزائى كى جائے تو كيا اس بات سے كوئى شخص يہ نتيجہ نكالے گا كہ بادشاہ يہ چاہتے ہيں كہ ان كى مملكت كے نوجوان سالہا سال قديم مصرى خط تصويرى كا مطالعہ كرتے رہيں ۔ او سى رِس[3] كى حكايت ِبے سروپا كے پس منظر ميں گم نظريات كى چهان پهٹك ميں لگے رہيں اور امكانى صحت كے ساتھ ان آداب و احترامات رسوم كى تحقیق كريں جو ازمنہ قديم ميں بليوں اور پيازوں كے لئے ملحوظ ركهے جاتے تهے؟ كيا ان پراز روے انصاف يہ الزام آئے گا كہ انہوں نے روايات كے تسلسل كو منقطع كيا ہے۔ اگر بادشاہ اپنى نوجوان رعیت كو اس تحقیق ميں لگانے كى بجائے كہ وہ مخروطى پتهر كے ميناروں [4] كى حنوطى تحريرپڑهيں ، انہيں يہ حكم ديں كہ وہ انگريزى اور فرانسيسى زبانيں سیكھیں اور اس طرح سائنسى علوم ميں دسترس حاصل كريں جن كے حصول كے لئے يہ زبانيں كليدى حيثيت ركهتى ہيں ؟ جن الفاظ پرپرانے نظام برقرار ركهنے كے حامى زيادہ اعتماد كررہے ہيں ، وہ الفاظ اُن كے نقطہ نظر كى صحيح ترجمانى نہيں كررہے اور الفاظ مابعد، برخلافِ ازيں قطعى طور پر فيصلہ كن