کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 174
برطانوى گرانٹ كو جديد علوم پر صرف كيا جائے يا مشرقى علوم پر؟
تعليماتِ عامہ كى كميٹى ميں شامل كچھ حضرات كا خيال ہے كہ اب تك اشاعت ِ تعليم كے سلسلے ميں انہوں نے جو راہ عمل اختيار كى ہے، اس كا قطعى تعين برطانوى پارليمان نے 1813ء ميں كرديا تها۔ اگر يہ رائے درست مان لى جائے تو اس كا مفاد يہ ہوگا كہ موجودہ طريق كار ميں كوئى تبديلى لانے كے لئے مجلس قانون ساز كو نيا ايكٹ وضع كرنا ضرورى ہوگا۔[1]
ميں نے ان حالات ميں يہى صحيح سمجها ہے كہ درپيش مسئلے ميں مختلف فيہ بيانات كى ترتيب ميں حصہ لينے سے اجتناب كروں اور اپنى رائے كو اس وقت تك كے لئے محفوظ ركهوں جب كونسل آف انڈيا كے رُكن كے طور پر يہ مسئلہ باضابطہ طور پر مير ے سامنے پيش ہو۔
مجهے يہ باور نہيں آتا كہ پارليمان كے اس ايكٹ كو لفظوں كے كسى بهى ردّوبدل سے وہ معنى پہنائے جاسكتے ہيں جو اس سے مراد لئے جارہے ہيں ۔اس ايكٹ[2] ميں كوئى ايسى دفعہ نہيں ہے جس كى رُو سے ان خاص زبانوں اور علوم كى وضاحت ہوتى ہو جن كا مطالعہ كيا جاتا ہے۔ اس ميں تو محض يہ ہے كہ ايك رقم اس مقصد كے لئے مخصوص كى گئى ہے كہ ادبى تخليقات كا احيا اور ارتقا ہو۔ ہندوستان كے اہل علم كى حوصلہ افزائى كى جائے اور حكومت ِبرطانيہ كے زير نگين علاقوں كے باشندوں ميں سائنسى علوم كى ترويج و اشاعت ہو۔
ايك مخصوص طبقے كى جانب سے دلائل پيش كئے جارہے ہيں بلكہ ايك حد تك باور كرايا جارہا ہے كہ ادبيات سے پارلیمان كى مراد صرف عربى اور سنسكرت كى ادبيات ہوسكتى ہيں اور يہ كہ پارليمان اہل علم يا فاضل باشندوں كامعزز لقب ايسے باشندوں كو نہيں دے سكتى تهى جو ملٹن[3]