کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 173
جبكہ انگريزى كے پرجوش حامى لارڈ ٹى بى ميكالے تهے جو نہ صرف انگريزى علوم كے موٴيد تهے بلكہ مشرقى علوم كو غايت درجہ حقارت كى نظر سے ديكهتے تهے۔ميكالے اپنى اس رائے ميں ايسٹ انڈيا كمپنى كے ايك سابق چيئرمين چارلس گرانٹ كى 1792ء ميں تحرير كردہ ان تصريحات سے بہت زيادہ متاثر ہوئے تهے جو برطانوى پارليمنٹ ميں پيش كى گئى تهيں ليكن چارلس گرانٹ نے اس رپورٹ ميں جن حواشى اور دلائل كا سہارا ليا ہے، وہ اكثر غير صحيح ہيں ۔اس سلسلے ميں راجہ رام موہن رائے كے ايك مراسلہ موٴرخہ 11/دسمبر 1823ء بنام گورنر جنرل نے بهى جلتى پر تيل كا كام كيا جس ميں انہوں نے سنسكرت كى تعليم كى بهرپور مذمت كرنے كے علاوہ اس كى تدريس كو كارِلاحاصل قرار ديا ہے۔ اسى دوران 1823ء ميں پبلك انسٹركشن كى جنرل كميٹى نے گورنر جنر ل ہند كو مشرقى ويورپى علوم كے حسين امتزاج كے متعلق رپورٹ ارسال كى،فرورى 1924ء كے ايك كميٹى مراسلہ ميں ہندو ومسلم علوم كو برقرار ركهنے پرزور ديا گيا، اسى سال كے مراسلہ اگست ميں متوقع مقامى عصبيتوں كے پيش نظر اصلاحى كام ميں حزم واحتياط پر زور ديا گيا او ريہ قرار ديا گيا كہ پيچهے رہ جانے والے مشرقى علوم كو جديد علوم سے ہم آہنگ كيا جائے تاكہ مشرقى علوم فروغ پائيں اور جديد علوم سے بهى متمتع ہوں ۔ انگريز سركار اور عوام ميں نفرتيں اور غلط فہمياں بهى نہ اُبهريں ۔يہ مراسلہ اس وقت كى پبلك انسٹركشن كميٹى نے متفقہ دستخطوں كے ساتھ گورنر جنرل ہند كو پيش كيا۔ان تمام دستاويزات كے نتيجے ميں دو طرح كے نقطہ ہائے نظر پيدا ہوئے۔ ايك وہ جو مشرقى علوم كو برقرا رركھ كراس ميں سائنس اور جديد علوم كى پيوندكارى كے حق ميں تها، اور دوسرا وہ جو انگريزى زبان كو بنياد بنا كر نيا تعليمى نظام رائج كرنا چاہتا تها۔لارڈ ميكالے اگر انصاف پسندى كا تهوڑا سا بهى مظاہر ہ كرتے تو ان كى اس يادداشت سے قبل دونوں نكتہ ہائے نظر نے اپنے اپنے دلائل خوب اچهى طرح نكهار كر پيش كرديے تهے، اور وہ ان ميں سے موزوں اور مبنى بر حقيقت نظامِ تعليم كى بنيادوں كى اچهى طرح نشاندہى كرسكتے تهے، ليكن انہوں نے مشرقى زبانوں ميں موجود علوم كو توہمات كا پلندہ اور محض بيكار قرار دے كر ان كى گرانٹ بند كرنے كى سفارش كى اور عربى وسنسكرت كالجوں كو بند كرنے كا فيصلہ اس شدت سے ديا كہ اگر اسے نہيں مانا جاتا تو وہ اس تعليمى مشن سے استعفىٰ دينے پر مجبور ہوں گے۔لارڈ ميكالے كى سنگين زيادتى يہ ہے كہ اس نے ماتحت رعايا كو حقيقى علوم سے ہم كنار كرنے كى بجائے وقتى بنيادوں پر حكومتى تقاضوں كى تكميل كے ليے ايسا طبقہ تيار كرنے كى پاليسى پر اصرار كيا جس سے حاكموں كا محض كام نكل سكے اور انہيں مقامى زبانوں كو سیكھنے كى بزعم خود ذلت سے بهى دو چار نہ ہونا پڑے يہ رويہ گويا رعايا كى تعلیمى ذمہ داريوں سے انحراف كے مترادف تها۔علاوہ ازيں انگريزوں نے علوم كے حصول كے ليے خود يونانى، لاطينى اور عربى زبان سے جو رويہ اپنايا كہ ان ميں موجود علمى مواد كو اپنى زبان ميں منتقل كر كے اسے تونگر بنايا، نہ كہ انگريزى زبان كو ہى خير باد كہا، انصاف كا تقاضا تها كہ مشرقى زبانوں كے ساتھ بهى يہى مثبت اور مصلحانہ رويہ اپنايا جاتا۔اسى پس منظر ميں ميكالے كى اس رپورٹ كا مطالعہ كريں جس نے برصغیر كى تعلیمى قسمت كا فيصلہ زبانِ جبر سے تحرير كيا … (حافظ حسن مدنى)