کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 169
بيتها أوحيث شاء ت ؟ قال بل حيث شاء ت: أن عليا عليه السلام لما توفى عمر أتى اُمّ كلثوم فانطلق بها إلى بيته (فروعِ كافى: 6/155) ”باب اس مسئلہ پر كہ جس مدخولہ عورت كا خاوند فوت ہوگيا ہو وہ عدت كہاں گزارے اور اس پركيا كچھ واجب ہے۔ حميد بن زياد، ابن سماعہ سے بيان كرتے ہيں اور وہ محمد بن زياد سے اوروہ عبداللہ بن سنان اور معاويہ بن عمار سے اور وہ ابوعبداللہ سے روايت كرتے ہيں كہ ميں نے ان سے پوچها كہ جس عورت كا خاوند فوت ہوجائے وہ عدت كے ايام اپنے گهر ميں گزارے يا جہاں كہيں وہ چاہے؟ آپ نے فرمايا: بلكہ جہاں كہيں وہ چاہے۔جب حضرت عمر فوت ہوئے تهے تو حضرت على رضی اللہ عنہ اُم كلثوم كے پاس آئے او رانہيں ليكر اپنے گهر چلے گئے۔“ قارئين كرام! ميں نے بعض معاصر شیعہ علما سے اس شادى كے متعلق مراسلت كى تو سب سے تفصيلى جواب محكمہ اوقاف و مواريث كے قاضى شيخ عبدالحميد الخطى نے لكها۔ ان كے الفاظ كا ترجمہ يہ ہے : ”باقى رہا شہسوارِ اسلام حضرت على رضی اللہ عنہ كا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اپنى لخت ِجگر كى شادى كا معاملہ تو ہم اس سے نفرت نہيں كرتے اور آپ كے سامنے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كااسوۂ حسنہ ہے اور آپ تمام مسلمانوں كے لئے اُسوہ تهے اور آپ نے اُمّ حبيبہ رضی اللہ عنہا بنت ابى سفيان رضی اللہ عنہ سے نكاح كيا تها اور ابوسفيان رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ كے مرتبہ و مقام پرنہ تهے۔ اس نكاح كے سلسلے ميں جو غبار اُڑايا جاتا ہے اس كا مطلق جواز نہيں ہے۔ باقى رہا تمہارا يہ كہنا كہ ايك جن عورت اُمّ كلثوم كى ہم شكل بن كر ان كى جگہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب كے پاس آئى تو يہ ہنسا ہنسا كررُلا دينے والا قول ہے اور اس لائق نہيں كہ اس پر توجہ كى جائے اور اس كيلئے وقت صرف كيا جائے اگر ہم اس طرح كى من گهڑت خرافات كى تلاش كريں تو ہميں بہت سى ہنسا اور رُلا دينے والى باتيں مليں گى… الخ شيخ نے بحث كے اصل قضيے كو نہيں چھیڑا اور وہ يہ تها كہ خاندانوں كے درميان ربط كے لئے دلالت ِمصاہرت بغير اطمينان اور تسلى كے نہيں ہوتى اوراس ميں أ صهار(سسرالى رشتہ داروں ) كے درميان باہمى اُلفت ، اُخوت اور محبت كى دلالت كى صراحت پائى جاتى ہے۔ ٭ ايسے ہى آپ پريہ واضح اور روشن ترين فرق مخفى بهى نہيں ہے كہ مسلمان مرد كى كتابيہ (يہوديہ يا نصرانيہ) سے شادى جائز ہے او ركتابى مرد كى مسلمان عورت سے شادى جائز نہيں