کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 168
٭ اور اس سلسلے ميں محقق سيد مہدى رجائى كا قول بهى ديكهئے۔ انہوں نے بهى حوالے ذكر كئے ہيں ۔ ٭ ان ميں ايك تحقیق حضرت عمر بن على بن حسين رضى الله عنھم كى طرف نسبت كى بنا پر عمرى كہلانے والے علامہ ابوالحسن عمرى كى ہے، وہ اپنى كتاب المجدي ميں لكهتے ہيں : والمعول عليه من هذه الروايات ما رأيناه آنفا من أن العباس بن عبدالمطلب زوجها عمر برضى أبيها عليه السلام وإذنه وأولدها عمر زيدا ”اور ان روايات سے معتبر بات جو ہم نے ابهى دیكھى ہے وہ يہ ہے كہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما بن عبدالمطلب نے حضرت على رضی اللہ عنہ كى رضا مندى اور اجازت سے ان كى شادى حضرت عمر سے كردى اور انہوں نے حضرت عمر كے بيٹے زيد كو جنم ديا… الخ“ ٭ بعض لوگوں نے يہاں عجیب وغريب اقوال بهى ذكر كئے ہيں كہ جن ميں ايك يہ بهى ہے كہ جس عورت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شادى كى تهى، وہ ايك جن عورت تهى يا يہ كہ اس نے ان سے صحبت نہيں كى تهى يا يہ كہ اس نے بزورِ بازو چهين كر شادى كى تهى…الخ علامہ مجلسى كہتے ہيں كہ اس طرح مفيد كا اُصولِ واقعہ سے انكار بهى منقول ہے، ليكن وہ صرف اس چيز كو بيان كرنے كے لئے ہے كہ يہ بات ان كے طرق سے ثابت نہيں ہے۔ ورنہ ان روايات اور عنقريب ذكر ہونے والى اسناد كے بعد يہ مانے بنا چارہ نہيں كہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو حضرت على رضی اللہ عنہ اُمّ كلثوم كے پاس آئے اور انہيں لے كر اپنے گهر چلے گئے۔ اس كے علاوہ اور روايات بهى ہيں جو ميں نے بحار الانوار ميں ذكر كى ہيں ۔ لہٰذا اس واقعہ كا انكار عجیب بات ہے۔ اس بات كا اصل جواب يہ ہے كہ يہ كام تقيہ اور اضطرار كى بنا پر ہوا تها۔ الخ (مرآة العقول: ج2/ ص45) ميں كہتا ہوں كہ شيعہ كے ہاں مستند ترين كتابِ حديث ’الكافى‘ كے مصنف نے ’كافى‘ ميں بہت سى احاديث ذكر كى ہيں ، ان ميں سے ايك حديث اس باب ميں درج ہے : باب المتوفى عنها زوجها المدخول بها أين تعتد وما يجب عليها حميد بن زياد عن ابن سماعة عن محمد بن زياد عن عبد الله بن سنان ومعاوية بن عمار عن أبى عبد الله عليه السلام قال: سألته عن المرأة المتوفى عنها زوجها أتعتد في