کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 165
موجودگى تك حرام ہوتى ہيں ۔ مزيد طوالت كى يہاں گنجائش نہيں ۔چونكہ بعد والے موضوع كو سمجھانے كے لئے اس موضوع كى اہميت ياد دلانا مقصود تهى۔ چنانچہ درج ذيل (حقيقت) پر غور كيجئے … ٭ سيدنا حسن و حسين رضى اللہ عنھما كى بہن كے والد سيدنا على المرتضىٰ رضی اللہ عنہ اپنى بيٹى اُمّ كلثوم رضی اللہ عنہا كا نكاح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے كرتے ہيں ۔ كيا ہم كہہ سكتے ہيں كہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ كے ڈر كى وجہ سے ايسا كيا تها ؟ ٭ ان كى شجاعت كہاں چلى گئى؟ ٭ ان كى اپنى بيٹى سے محبت كہاں گئى؟ ٭ كياوہ اپنى بيٹى معاذ اللہ ايك دشمن كے سپرد كرسكتے تهے؟ ٭ اللہ كے دين كے معاملے ميں ان كى غيرت كہاں گئى؟ اس طرح كے نہ ختم ہونے والے سوالات جنم ليتے رہيں گے يا پهر ہميں يہ كہنا چاہئے كہ حضرت سيدنا على المرتضىٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ كى خواہش اور اس كے ساتھ رضامندى كى وجہ سے اپنى بيٹى كا نكاح ان سے كرديا تها۔ ہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت رسولِ كريم صلی اللہ علیہ وسلم كى اس بيٹى سے صحيح اور شرعى نكاح كياتها، اس ميں كسى شك و شبہ كى گنجائش نہيں او ريہ نكاح دونوں خاندانوں كے درميان محبت اور صلہ رحمى پر دلالت كرتا ہے اور ايسا كيوں نہ ہوتا۔ كيا يہ حقيقت نہيں كہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ كى بيٹى كے شوہر ہيں اور حضرت اُمّ كلثوم بنت على رضى اللہ عنھما كى حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شادى سے پہلے بهى دونوں خاندانوں ميں مصاہرت قائم تهى۔ ٭ دوسرى مثال: حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ كا يہ قول بهى كافى ہے كہ ولدنى أبوبكر مرتين ” مجهے ابوبكر رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ جنا ہے۔“ آپ جانتے ہيں كہ امّ جعفر كون ہے؟ يہ اُمّ فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابى بكر الصديق ہيں اور اُمّ فروہ كى ماں اسماء بنت عبدالرحمن بن ابوبكر الصديق ہے۔3 ديكهئے يہاں حضرت امام جعفر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوبكر رضی اللہ عنہ كا نام ليا ہے، محمدبن ابى بكر كا نام نہيں