کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 164
حضرت نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنى آبرو كى خاطر قتل ہونے والے كو شہيد قرار ديا ہے اور آپ نے بنفس نفيس اس عورت كى خاطر لڑائى كى قيادت كى تهى جس كے پردے سے يہوديوں نے بے ہودگى كى تهى۔ اس سلسلے ميں حضرت رسولِ كريم صلی اللہ علیہ وسلم اور يہود بنى قینقاع كے درميان نقض معاہدہ كا قصہ مشہور ہے جس كا خلاصہ يہ ہے كہ ايك يہودى نے اپنى دكان سے سونا خريدنے والى مسلمان خاتون سے چہرہ سے پردہ ہٹانے كا مطالبہ كرديا۔ اس نے انكا ركيا تو اس خاتون كو غافل بیٹھى ديكھ كر اس كا كپڑا كسى چيز سے باندھ ديا۔ جب وہ كهڑى ہوئى تو اس كا چہرہ ننگا ہوگيا۔ اس نے زيادتى كا بدلہ چكانے كى صدا بلند كى تو پاس كهڑے مسلمان نوجوان نے يہودى كو قتل كرديا۔ پهر يہودى اكٹھے ہوگئے اور انہوں نے اس نوجوان كو قتل كرديا اور اس كے ساتھ ساتھ ان كى طرف سے معاہدہ توڑنے كے كئى اور اسباب بهى سامنے آگئے تهے۔
عقد ِنكاح اور اس پر گواہوں كى شرط ركهنے بلكہ حد ِقذف اور حد ِزنا وغيرہ جيسے شرعى احكام پر تدبر كرنے اور ان كى حكمتوں اور اثرات پر غور كرنے اور ان كے بارے ميں قوانين پر نظر كرنے سے آپ پر اس موضوع كى اہميت بخوبى آشكارا ہوجائے گى۔
رشتہ مصاہرت كى بنا پر بہت سے احكام مرتب ہوتے ہيں ۔ عقد ِنكاح جيسے مضبوط اور پختہ قانون پر غور كريں ، جب آدمى نكاح كا پيغام بھیجتا ہے تو اس كے اپنے احكام ہيں ۔ چنانچہ كبهى تو قبول اور كبهى انكار ہوجاتا ہے۔ پهر نكاح كا خواہش مند بعض اوقات دوسروں كى رضامندى حاصل كرنے كى خاطر اپنے گهر والوں اور اپنے دوستوں كى معاونت بهى طلب كرتا ہے اور عورتوں كے سرپرست اور گهر والے رشتہ طلب كرنے والے سے سوال كرتے ہيں اور انہيں بهى قبول يا ردّ كرنے كا اختيار ہوتا ہے۔ اگرچہ اس نے تحفے بهى ديے ہوں اور قبل از نكاح حق مہر بهى دے ديا ہو۔ چنانچہ جب تك عقد مكمل نہيں ہوتا، لڑكى كے اوليا كو خاطب (نكاح كے خواہشمند) كو ردّ كرنے كا حق حاصل ہوتا ہے۔
ايسے ہى عقد ميں گواہوں كا ہونا ضرورى ہے اور نكاح كى تشہير كرنا شرعى تقاضاہے، كيونكہ نكاح كى بنا پر كئى احكام مرتب ہوتے ہيں ۔چنانچہ وہ دور والوں كوقريب كرتا ہے اورانہيں صهرى رشتہ دار بناتا ہے۔ نكاح كى وجہ سے خاوند پر كئى عورتيں ہميشہ كے لئے يا بيوى كى