کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 161
كا مطلب تمام كتابوں كى تمام روايات ميں تشكيك پيدا كرنا ہوگا۔ ممكن ہے كہ جو چيز شيعہ كو پسند نہ آئے وہ كہہ ديں كہ يہ دسيسہ كارى ہے!!
خصوصى طور پر اس صورت ميں كہ ہر عالم كو روايات قبول كرنے يا ردّ كرنے كا حق ہے، اس لئے كہ ان كے ہاں اس كا كوئى ضابطہ نہيں ہے۔ بيك وقت ہنسا اور رُلا دينے والا نادر قول يہ ہے كہ كبار صحابہ كے نامو ں پر نام ركهنے كى غرض تقيہ كے طور پر انہيں سب و شتم كرنا ہے!!
سبحان اللہ! كيا ہمارے لئے جائز ہے كہ ہم يہ نظريہ ركهيں كہ حضرت على رضی اللہ عنہ اپنے ساتهيوں اور عام مسلمانوں كو دهوكا ديتے تهے؟ اور حضرت على رضی اللہ عنہ اس غرض سے اپنى اولاد كو كيوں دكہ ديتے تهے؟ اور حضرت على كو ان ناموں كے ذريعے كن سے بچاوٴ كى توقع تهى ؟آپ رضی اللہ عنہ كى شجاعت اور عزتِ نفس اس بات سے انكار كرتى ہے كہ وہ بنو تيم يا بنو عدى يا بنو اُميہ كى وجہ سے اپنے آپ كو يا اپنى اولاد كى توہين كرتے ہوں ۔
حضرت على المرتضىٰ رضی اللہ عنہ كى سيرت كا مطالعہ كرنے والا حق اليقين ركهتا ہے كہ آپ رضی اللہ عنہ بہادر ترين آدمى تهے، برخلاف ان جهوٹى روايات كے جو انہيں ايسا بزدل ثابت كرتى ہيں كہ وہ اپنے دين اور اپنى عزت و تكريم كى پامالى پر چپ سادہ ليتے تهے۔ افسوسناك معاملہ يہ ہے كہ ايسى روايات ان كى كتابوں ميں كثرت سے پائى جاتى ہيں ۔
نتيجہ يہ ہے كہ حضرت على المرتضىٰ رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ كے صاحبزادوں جيسے ائمہ اہل بيت رضی اللہ عنہم كا طرزِ عمل، عقلى، نفسياتى اور حقيقى اعتبار سے اس بات كى مضبوط دليل ہے كہ اہل بيت سچے دل سے خلفاے راشدين اور تمام اصحابِ رضی اللہ عنہم رسول سے محبت ركهتے تهے اور آپ بذاتِ خود بهى اس صورتِ حال كا اندازہ كرسكتے ہيں اور اسے جهٹلانے كى مجال نہيں اور يہ صورتِ حال اللہ تعالىٰ كے اس قول كى تصديق كرتى ہے كہ
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِيْنَ مَعَه أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيْمَاهُمْ فِىْ وُجُوْهِهِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ﴾
”محمد، الله كے رسول ہيں اور جو لوگ ان كے ساتھ ہيں وہ كفار پر سخت ہيں اورآپس ميں رحم دل ہيں تو انہيں جھكے ہوئے سربسجود پائے گا وہ اللہ كا فضل اور اس كى خوشنودى تلاش كرتے