کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 151
كى نشاندہى كى كوشش كى جائے۔
آخر ميں اس تبصرے پر ہم اپنى بات كو ختم كرتے ہيں كہ بحيثيت ِمجموعى دينى مدارس اور شعبہ ہاے اسلاميات ميں تحقیقى رجحانات رو بہ زوال ہيں ۔ قبوليت ِاسلام كے رجحانات ميں جوں جوں اضافہ ہورہا ہے توں توں اسلام كو نئے مسائل سے بهى واسطہ پيش آرہا ہے۔ ان حالات ميں اسلام سے وابستہ حضرات كى ذمہ دارياں بہت بڑھ جاتى ہيں ۔
ديگر علوم ميں مختلف حوالوں سے جو تحقیقى كام ہورہا ہے، اس لحاظ سے بهى اسلامى علوم كى تعليم او ر تحقیق كى صورتحال كسى طور تسلى بخش نہيں ہے اور اس كے لئے سب كو اجتماعى جدوجہد كرنے كى ضرورت ہے۔ دينى مدارس ہوں يا يونيورسٹيوں كے شعبہ ہائے اسلاميات وعربى، دراصل وہ ايك منزل كے راہى ہيں ۔ آپس ميں معلومات اورتجربوں كے تبادلے سے منزل كى طرف بہترطور پر قدم اٹهائے جاسكتے ہيں ۔
ملك بهر ميں قائم حقيقى اسلامى تحقیقى مراكز كى تعداد انگليوں پر گنى جاسكتى ہے، اس كے باوجود تحقیقى كام سے اہل علم كا ناطہ ابهى تك ٹوٹا نہيں ہے۔ اگر احساس بيدار ہوجائے تو يہيں سے اسلام كى درخشندہ تحقیقى روايات كا احيا كيا جاسكتا ہے۔اقدام سے قبل تحقیق كسى بهى كام ميں بنيادى حيثيت ركھتى ہے، اور زندہ قوميں اپنے تحقیقى كام كى بدولت ہى مسائل كى حقيقى وجوہ تك پہنچ كر ان كا حل تلاش كرتى ہيں ۔اس لحاظ سے ہميں اسلامى موضوعات پر تحقیقى رجحانات كى بطورِ خاص حوصلہ افزائى كرنى چاہئے اور اس عمل ميں اپنا حصہ ڈالتے رہنا چاہئے۔ (حافظ حسن مدنى)