کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 149
پرستى كى بجائے نصوصِ شرعيہ كى بنا پر موقف قائم كيا جاتا ہے۔
ظاہر ہے كہ يہ تبصرہ دينى مدارس ميں علم و تحقیق كے بجائے اس خرابى كا عكاس ہے جو سامراجى غلبہ كے بعددينى حلقوں ميں سرايت كر گئيں جن ميں ايك طرف دينى حلقے علمى مكاتب ِفكر كے بجائے فرقوں اوران كى تنظيمى يونٹوں كى شكل اختيار كرتے گئے۔ دوسرى طرف سامراج كے جبر كے مقابلہ ميں دينى ذہن كو جو مسجد اور خانقاہوں ميں بند ہونے پر مجبور ہونا پڑا تو اس كے نتيجہ ميں وہ اجتماعى ميدانوں يا معاشرت،معيشت اور سياست ميں جولانى نہ دكها سكے۔اسى دوران سامراجى كوششوں سے جب مسيحى،آريائى، سناتن، دہرى، شدہى وغيرہ مذہبى تحريكوں كواپنے پر پرزے پهيلانے كا موقع ملا تو ميدانِ مناظرہ گرم ہو گيا جوبعد ميں بڑھتا ہوا خود اسلامى مكاتب ِفكر ميں باہمى تناوٴ كا باعث ہوا اور اس طرح شيعہ كے تين امامى فرقوں آغا خانى،جعفرى اور زيدى كے بعد اہل سنت كوحنفى(ديوبندى) حنفى(بريلوى) اوراہل حديث ميں تقسيم كرنے پر منتج ہوا۔الغرض اس تبصرہ كا تعلق نفس تحقیق كے بجائے ان تحقیقى رجحانات سے ہے جو سوئے اتفاق سے مذہبى حلقوں كى نفسيات ميں جڑ پكڑ گئے اور اس سے ان كے كردار اور اثر اندازى كى صلاحيت كو خاطرخواہ نقصان ہوا۔
تجاويز
چونكہ ہمارا موضوع تحقیق وتصنيف ہے، لہٰذا ان مذہبى رجحانات پر زيادہ طويل گفتگو كے بجائے آخر ميں دو تجاويز پر بات كو ختم كيا جاتا ہے جن ميں ايك جديد جامعات ميں ہونے والى تحقیق كے بارے ميں اور دوسرى اربابِ دينى مدارس كے لئے :
(1) تحقیق كو حقيقت آشنا كيا جائے: يونيورسٹيوں ميں پى ايچ ڈى ريگولر شروع ہونے كے بعد اُميدواروں كا ايك تانتا بندہا ہوا ہے، دوسرى طرف تحقیق طلب موضوعات كى يونيورسٹيوں ميں ہميشہ سے قلت رہى ہے۔ ادہر يہ بهى حقيقت ہے كہ پاكستان ميں اسلام كے حوالے سے نہ صرف ہزاروں موضوعات پر كام ہونا باقى ہے بلكہ دنيا بهر ميں اسلام كو درپيش مسائل كے حوالے سے بے شمار موضوعات تحقیق طلب ہيں ۔ ايسى صورتِ حال ميں فرضى موضوع پر تحقیق كرنے يا كسى سابقہ تحقیق ميں معمولى سى عنوان كى تبديلى كركے تحقیق كرنے كے بجائے مناسب