کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 148
ہوتے ہيں ۔ ملكى حالات اور زمينى حقائق سے بالاتر ہوكر مثالى تصورات پيش كردينا تو بڑا آسان ہے ليكن دينى مدارس كو درپيش مشكلات اور دستياب وسائل كى روشنى ميں ان كى كاوشوں كااعتراف نہ كرنا صريح زيادتى ہے۔ تحقیق كے معيار اور موضوعات كى كسوٹى پر اگر يونيورسٹيوں كے مقالات كو پركها جائے تو بہت سے عجوبہ روزگار نمونہ ہائے تحقیق ديكهنے كو مليں ۔ يونيورسٹى كے پروفيسرز كے ريسرچ پيپرز كا سراغ لگايا جائے تو ان ميں حقيقى ريسرچ كے بارے ميں بهى بہت كچھ بحث كى جا سكتى ہے۔ ان اُمور كو مدنظر ركهتے ہوئے دينى مدارس كے پيش كردہ موضوعات اور تحقیق كے معيار پر چند نكاتى تبصرہ نذرِ قارئين ہے : (1) مدارس ميں ان موضوعات كو زيادہ تر موضوعِ بحث بنايا جاتا ہے جن پر پہلے سے تحقیق اور دلائل كے انبار موجود ہيں اور چند موضوعات پر جواب درجواب كاطويل سلسلہ ہے۔ (2)مصادرِ شريعت پر كام كرنے كى بجائے شخصيات اور ان كے ملفوظات پر زيادہ توجہ دى جاتى ہے۔ (3)اتحادو اتفاق كى بجائے اس لٹريچر ميں افتراق و انتشار كا رجحان پايا جاتاہے۔ حق كو واضح كرنے كى بجائے اپنے موقف كى تائيد ميں دلائل كو جمع كيا جاتا ہے۔ (4)درپيش مسائل اور سلگتے سوالات كے بجائے گڑے مردے اُكهاڑے جاتے ہيں ۔ وسيع النظرى كى بجائے تنگ خيالى غالب ہے۔ عبادات و الٰہيات پر بيش بہا لٹريچر كے بعد سياست واقتصاد اور معاملات و معاشرت پر تحقیق كارجحان مفقود ہے۔ البتہ گذشتہ برسوں ميں اقتصاديات پر كافى كام سامنے آيا ہے۔ (5)ديگر مذاہب اور اسلام كو درپيش عالمى چيلنجز كے حوالے سے كام ہونا باقى ہے۔ (6)عبارت سلیس اور عام فہم ہونے كى بجائے عربى اُسلو ب ميں لكھى جاتى ہے ۔ خصوصا جديد تعليم يافتہ حضرات كيلئے يہ اصطلاحات مشكل، ناقابل فہم اور اُسلوب مغلق اور مبہم ہوتا ہے۔ (7)كام كى تعدادزيادہ ليكن افاديت اور اشاعت كا دائرہ محدود ہے۔ ليكن يہ امر قابل تعريف ہے كہ دينى مدارس كے فضلا كى تحريريں قرآن و حديث سے بكثرت استشہاد، ائمہ اسلاف كے اقوال سے جابجا استناد سے مزين ہوتى ہيں اور ان ميں عقل