کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 143
جواب تلاش كرنااور ديگر كتب سے ان كا مطالعہ كركے ان كى وضاحت كرنا طلبہ كے ذمے لگايا جاتا ہے۔اس اعتبار سے دينى مدارس كے اسباق كى نہ صرف تيارى بلكہ عمل تدريس ميں بهى تحقیقى رجحانات كا غلبہ ہے۔ اس استاد كو مدارس ميں ہدفِ تنقيد بنايا جاتا ہے جوبنيادى مراجع سے رجوع يا تيارى كے بغيرتدريس كرتا ہو يا ترجموں اورمعاون كتب كى مدد سے پڑهاتا ہو۔ يوں بهى استاد طلبہ كے اكثر سوالات كا جواب دينے كا پابند ہوتا ہے اور سبق پر اس كى گرفت اور اصل ماخذ تك اس كى رسائى كا دورانِ سبق بخوبى اندازہ ہوجاتا ہے۔ دينى مدارس كے اساتذہ اپنے فرائض كى تكميل كے لئے جن بنيادى كتب كا مطالعہ كركے اپنے سبق كى تيارى كرتے ہيں ، ان كو وہ بعض اوقات مستقل مضمون كى شكل ميں تحرير كركے مختلف دينى رسائل ميں شائع كرا ديتے ہيں ۔ چنانچہ دينى رسائل ميں اكثر علما كى تحريريں اسى نوعيت كى ہيں جودورانِ تدريس مسائل كو حل كرتے ہوئے انہوں نے تحقیق كى۔ بعض اساتذہ كتاب كى تدريس كے دوران اپنے وضاحتى نوٹس باقاعدہ طلبہ كو لكھواتے ہيں اور حسب ضرورت ايسے حواشى كى باقاعدہ اشاعت بهى ہوجاتى ہے۔ دينى مدارس كى روايات ميں سے يہ بهى ہے كہ ايك فاضل استاذ جو عموماً صدر مدرّس يا شيخ الحديث ہوتا ہے، مختلف پيش آمدہ مسائل پر اساتذہ كى مجلس ميں تبادلہ خيال كرتا ہے اور اس بحث مباحثہ كے نتيجہ ميں نكھرنے والے نكات كو اصل مصادر سے نكال كر ضبط ِتحرير ميں لانے كى ذمہ دارى كسى موزوں استاذ كے سپرد كرتا ہے۔ ہردينى مدرسہ ميں چند اساتذہ ضرور ايسے ہوتے ہيں جو تصنيفى مشاغل اپناتے ہيں ۔ دينى مدارس كے ترجمان رسائل وجرائد عموماً يہى اساتذہ نكالتے ہيں ، جس كے ذريعے اس مدرسہ كى تحقیقات منصہ شہود پر آتى رہتى ہيں ۔ ايسے ہى مدارس كے يہ اساتذہ كسى نہ كسى اہم كتاب كى شرح وحواشى كا شغل بهى ركهتے ہيں ۔ كسى ماہر استاد كى معيت ميں كسى اہم دينى كتاب كى شرح كاكام كرنا مدارس كا ايسا معمول ہے جس سے كوئى بهى قابل ذكر مدرسہ مستثنىٰ نہيں ۔ مدارس كے سينئر اساتذہ عموماً تدريس ميں مہارت اور تجربے كے بعد ادھیڑعمرى ميں مختلف دينى موضوعات پر تصنيف وتاليف كا كام شروع كرديتے ہيں اور ايسى ہى تصنيفات سے دينى مكتبوں اور دينى لٹريچر كى دنيا آباد ہے۔