کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 142
كے مقابلے ميں كم ہوتا ہے۔ البتہ يہ امر درست ہے كہ دينى مدارس كے طلبہ كى اپنے موضوع پر گرفت كے مظاہر كئى بار سامنے آئے ہيں ۔ ايسا تو اكثر ہوتا ہے كہ يونيورسٹى كے ايم اے عربى يا اسلاميات كا امتحان دينے والے طلبہ مدارس كے ثانوى كلاسوں كے طلبہ سے اپنے امتحان كى تيارى كرتے نظر آتے ہيں ۔
اس سلسلے ميں ايك تازہ واقعہ كا حوالہ دينا بهى مناسب ہوگا۔ 2001ء ميں جب پنجاب يونيورسٹى نے ريگولر Ph.D كلاسز كا آغاز كيا تو اس ميں داخلہ ٹيسٹ بہت مشكل بنايا گيا۔ شعبہٴ اسلاميات كے فاضل اساتذہ كے بنائے گئے اس مشكل ٹيسٹ ميں تين صد سے زائد طلبہ نے شركت كى ليكن كامياب ہونے والوں ميں تمام طلبہ دينى مدارس كے فارغ التحصيل تهے۔ يونيورسٹيوں كا اپنا كوئى بهى ايم اے كا سند يافتہ طالب علم اس امتحان ميں كامياب نہ ہوسكا۔ يہى صورت حال 2002ء ميں پنجاب يونيورسٹى كے شيخ زايد سنٹر ميں پى ايچ ڈى كے ٹيسٹ ميں پيش آئى۔ اس امتياز كى بنيادى وجہ دينى مدارس كے طلبہ كى مخصوص نوعيت كى تعليم ہے۔ دينى مدارس ميں پڑهائے جانے والے درسِ نظامى كے بارے علامہ شبلى نعمانى كا يہ تبصرہ اہم ہے كہ
”اس نصاب كى مقدم خصوصيت اس كے مرتب كے پيش نظر يہ تهى كہ نصاب كى تكميل كے بعد طالب ِعلم جس فن كى جو چاہے كتاب سمجھ سكے۔“
برصغير كے نظامِ تعليم پر تحقیق كرنے والے مولانا ابوالحسنات ندوى رحمۃ اللہ علیہ كى اس نصاب كے بارے ميں رائے يہ ہے :
”طالب علموں ميں امعانِ نظر اور قوتِ مطالعہ پيدا كرنے كا اس ميں بہت لحاظ ركها گيا ہے اور جس كسى نے تحقیق سے پڑها ہو توگو اس كو ختم تعليم كے معاً بعد كسى مخصوص فن ميں كمال حاصل نہيں ہوجاتا ليكن يہ صلاحيت ضرور پيدا ہوجاتى ہے كہ آئندہ محض اپنى محنت سے جس فن ميں چاہے، كمال پيدا كرلے۔“ (برصغير كے قديم عربى مدارس كا نظام تعليم از پروفيسر بختيار حسين صديقى: ص23)
دينى مدارس كے اساتذہ اپنے اسباق كى تيارى كے لئے باقاعدہ بنيادى مصادرومراجع علم سے رجوع كرتے ہيں او رطلبہ ميں دورانِ سبق مختلف سوالات پوچھنے اور ان كى وضاحت كى بطورِ خاص حوصلہ افزائى كى جاتى ہے۔ايسے ہى دورانِ تدريس پيدا ہونے والے كئى سوالات كا