کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 141
آسان الفاظ ميں انسانى تاريخ ميں پڑهنے اور بولنے سے شرو ع ہونے والى صلاحيت بعد ميں كئى صديوں تك تحرير كى مرہونِ منت رہى، ليكن آئندہ دور ميں تحرير كى جگہ كئى ميدانوں ميں انفرميشن ٹيكنالوجى برترى ليتے ہوئے نظر آرہى ہے۔پرنٹنگ اور پريس كى ايجاد سے علم و تحقیق ميں جو تيزى آئى تهى، كمپيوٹر كى ايجاد سے اس ميں ايك نيا اور اہم سنگ ِميل پيش آگيا ہے۔ اس اعتبار سے علم و تحقیق كو صرف تحريركے پيمانے سے ماپنا تنگ نظرى اور فكرى جبر كا اسلوب ہى ہوسكتا ہے۔
اس بحث كا خاتمہ اس نتيجے پر ہوتا ہے كہ سندى تحقیق (جو فن تحقیق كے تقاضوں كو پورا كرتى ہے)ميں تو فى الحال تحرير و تصنيف ايك لازمہ كى حيثيت ركھتى ہے ليكن عمل تحقیق كا اسے لازمہ قرار دينا زيادتى ہوگى۔اس كى مثال ايسے ہى ہے كہ علم كى پيمائش ڈگريوں سے شروع كردى جائے اور جوفاضل ترين شخصيات بذاتِ خود سند ہوتى ہيں ،ان كى علمى صلاحيت كو سندوں سے جانچا جانے لگے۔
دينى مدارس ميں غير سندى تحقیق ہميشہ سے جارى ہے اوراپنے موجودہ دورِ زوال ميں بهى دينى مدارس اس بنيادى وصف سے محروم نہيں ۔ اس كى بنيادى وجہ دينى مدارس كا ٹهوس طرزِ تدريس ہے۔ چونكہ دينى علوم كے طلبہ اپنى مستند دينى معلومات كے لئے بنيادى انحصار قرآن وحديث پر كرتے ہيں ۔ اس لئے ان ميں سے معانى كا استخراج، مفہوم كى گہرائى تك پہنچنا، الفاظ اور اسلوبِ بيان سے بہت كچھ نكالنے كى مشق ان كى تعليم وتربيت كا لازمى حصہ ہوتى ہے۔ اسى طرح مدارس ميں لسانى علوم اور اُصولِ شريعت بهى اس دقت اور محنت سے پڑهائے جاتے ہيں كہ ايك دينى مدرسہ كاطالب علم، سكول و كالج كے طالب علم كے مقابلے ميں (اپنے اپنے موضوع كى مناسبت سے) زيادہ رسوخ اور اعتماد ركهتا ہے۔
علومِ شريعت كى تحصيل كے دوران انہيں اس قدر ذہنى مشق كرا دى جاتى ہے كہ وه بعد ميں كسى بهى ميدانِ حيات ميں معمولى محنت سے كامياب ہوسكتا ہے۔ مختلف تجزيوں ميں دينى مدارس كے طلبہ كى يہ لياقت خوب نماياں ہوتى ہے، ليكن اس امر كا اعتراف بہى ضرورى ہے كہ طلبہ مدارس ميں معلومات اور مطالعہ كى وسعت اور پهيلاوٴ كا رجحان جديد يونيورسٹيوں كے طلبہ