کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 139
دوسرى طرف خطابت كى بعض ايسى ممتاز خصوصيات ہيں ،جن سے تحرير وتصنيف عارى ہے۔ فرمانِ نبوى ہے: إن من البيان لسحرًا(مسند احمد:1/269) ”انسان كے بيان ميں سحر (جادوكا اثر) پايا جاتا ہے۔“ فورى طور پر لوگوں كو متاثر كرنے ميں تحرير وہ كام نہيں كرسكتى جو انسان اپنے لب ولہجے، الفاظ كے زير وبم اور حركات و سكنات سے كرليتا ہے۔ غرض ابلاغ كے مختلف ذرائع كے مقاصد اور فوائد وثمرات مختلف ہيں ، جن ميں ہر ايك كى خصوصيات اپنى جگہ پر امتياز ركھتى ہيں ليكن لوگوں ميں عرصہ دراز تك باقى رہنے كے اعتبار سے تحرير كو ديگر ذرائع ابلاغ پر ايك فوقيت حاصل ہے۔ ايسے ہى يہ بهى حقيقت ہے كہ انسان جس شے كو خود ديكهتا اور محسوس كرتا ہے، اسى كا اثر زيادہ قبول كرتا ہے۔ وگرنہ بہت سے خطيب، خوش الحان اور باصلاحيت لوگ پچھلى صديوں ميں گزر گئے اور آج ہم ان كے نام تك نہيں جانتے !! اس بحث كا مدعا يہ ہے كہ عمل تحقیق كو فن تحرير وتصنيف سے جداگانہ طور پر سمجھنا چاہئے۔ علم و تحقیق كا لازمہ تصنيف وتاليف نہيں ہے بلكہ تصنيف وتاليف اس كى حفاظت كى ايك صورت ہے۔اور يہ حفاظت ديگر ذرائع سے بهى ہوسكتى ہے بلكہ مختلف نوعيت كے كاموں كى حفاظت اور پيش كش كے ذرائع مختلف ہوسكتے ہيں ۔ موجودہ دور كا الميہ يہ ہے كہ يہاں تحقیق كے عمل كى بجائے اس پر ايك طرف صحافيانہ رنگ غالب ہے، تو دوسرى طرف ہر تحرير كو تحقیق قرار دينے كى كوشش ہوتى ہے، جبكہ جس چيز كوضبط تحرير ميں نہ لايا جائے ، اس كو تحقیق ہى تصور نہيں كيا جاتا۔ يہ افراط وتفريط پر مبنى رويہ ہے جس كا ايك مظہر موجودہ سيمينار كا عنوان بهى ہے ، جس ميں غالباً تحقیق كو صحافت كے ساتھ اسى لئے نتھى كيا گيا ہے، جبكہ صحافت كا درجہ توتصنيف وتاليف كے بهى بعد آتا ہے۔كيونكہ آج كل صحافت سے مراد وہ پرنٹ ميڈيا ہے جو ذرائع ابلاغ كا ايك حصہ ہے جب كہ تحقیق كے تقاضے بالكل جداگانہ ہيں ۔ تحقیق كى ايك اہم قسم ’معاشرتى تحقیق‘ بهى ہے جس ميں معاشرے ميں مختلف رجحانات كا اندازہ لگانے كے لئے مختلف نوعيت كے اعدادوشمار جمع كركے بعض نتائج تك پہنچا جاتا ہے۔ يہاں معاشرے ميں اعدادوشمار كے ذريعے نتائج تك پہنچنا تو تحقیقى عمل ہے ليكن اس كى