کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 138
نظر آئے گى۔ ليكن اگر كوئى انسان قوت كے كسى مظہر سے وقتى يا دائمى طور پر محروم ہو تو اس سے اس كى اصل قوت ختم نہيں ہوجاتى۔
آج ہم ان اہل علم كو تو جانتے ہيں جنہوں نے اعلىٰ تصانيف كا ورثہ انسانيت كے لئے چهوڑا ہے ليكن جو لوگ اپنے علم كا اظہار خطابت يا تدريس كے ذريعے كرتے تهے، كئى صدياں گزرنے كے بعد ان كے نام سے بهى ہميں آگاہى نہيں ليكن ان كے وہ نامور شاگرد جنہوں نے ان سے كسب ِفيض كركے اُمت كے لئے تحريرى ورثہ چهوڑا، آج ان سے زيادہ قد آور حيثيت ركهتے ہيں ۔ ان ميں ايك نماياں مثال امام بخارى رحمۃ اللہ علیہ كے استاذ شيخ على بن مدينى كى ہے۔ ايسى ہى ايك مثال امام ابو حنيفہ رحمۃ اللہ علیہ بهى ہيں جنہوں نے عقائد ميں الفقہ الأكبر تصنيف كى ہے يا بعض چند صفحات كے پمفلٹ ليكن ان كى طول طويل فقہ كى تدوين ان كے شاگردوں كے ہاتهوں ہوئى اور انہى كے نام سے شائع بهى ہو رہى ہے۔ دينيات كے طلبہ صحيح بخارى كا تذكرہ تو دن ميں كئى بار كرتے ہيں او راس كو پڑهانے والے كو شيخ الحديث (صدر مدرّس) كا منصب حاصل ہوتا ہے گويا امام بخارى رحمۃ اللہ علیہ كى تاليف صحيح بخارى سے ان كا امير المومنين فى الحديث كا منصب قائم ودائم ہے، ليكن ان كے استاد على بن مدينى كو عام طلبا ميں وہ تعارف نہيں ملا، حالانكہ امام بخارى رحمۃ اللہ علیہ ان كے بارے ميں لكھتے ہيں كہ ميں نے ان كے سامنے اپنے علم كو ہميشہ انتہائى كمتر پايا۔ ايسے ہى لوگوں ميں سے نامور ائمہ اسلاف ہيں جن كے تذكرے كتب ِسلف ميں تو ملتے ہيں ليكن علمى حلقوں ميں ان كا تذكرہ زبان پر بہت كم آتا ہے،كيونكہ ان كا علمى ذخيرہ صفحہٴ قرطاس پر محفوظ نہيں ہے۔
علم و تحقیق ايك ادراك ہے جب كہ فن اسے پيش كرنے كا ايك اُسلوب ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر فن كے ايسے خواص ہيں جو دوسروں ميں بهى نہيں پائے جاتے، اسى بنا پر فنون كے فوائد وثمرات بهى مختلف ہيں ۔ چنانچہ تصنيف كے بارے ميں عربى زبان كا مشہور شعر ہے :
يلوح الخط في القرطاس دهرا وكاتبه رميم في التراب
”تحرير صفحہٴ قرطاس پر كئى زمانے ثبت رہتى ہے، جبكہ اس كو لكهنے والامٹى ميں مل كر قصہ پارينہ بن چكا ہوتا ہے۔“