کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 137
سے بهى يہ پتہ نہيں چلتا كہ تحقیق كواحاطہ تحرير ميں لانابهى اس كا لازمہ ہوناچاہئے۔ اس كى مثال بالكل ايسے ہى ہے جيسے ہمارے ہاں علم كا تصور لكھنے پڑهنے كى صلاحيت كے ساتھ ہى مشروط ہے۔بلكہ صاحب ِعلم شخص كو ہمارى زبان ميں پڑها لكها آدمى ہى كہا جاتا ہے۔ ليكن ذرا گہرائى سے جائزہ ليا جائے تو علم كى تكميل اور اس ميں توسيع تو لكھنے پڑهنے سے ہوتى ہے، نفس علم كاوجود يا اسكا حصول صرف لكھنے پڑهنے كا محتاج نہيں ، يہى وجہ ہے كہ نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم جو معلم كائنات كے بلند ترين مرتبے پر فائز ہيں اور علم كو دنيا ميں حقيقى بنياديں آپ نے فراہم كى ہيں ، باوجود علم و فضل ميں اشرف المخلوقات ہونے كے لكهنے پڑهنے كى صلاحيت نہيں ركهتے تهے۔ ايسے ہى صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كے بہترين طبقہ كا حال ہے كہ ان ميں سے كئى حضرات اس صلاحيت سے محروم تهے ليكن ان كے علم و كمال پر بحث كرنا گويا سورج كو چراغ دكهانے كے مترادف ہے۔ ايسے ہى نابينا شخص لكھنے پڑهنے دونوں كى صلاحيت سے محروم ہوتا ہے، كيا يہ كہا جاسكتا ہے كہ كوئى نابينا شخص پڑها لكها نہيں ہوتا۔سعودى عرب كے مفتى اعظم شيخ عبد العزيز بن باز نہ صرف علم كے بلند ترين درجے پر فائز تهے بلكہ انہيں دسيوں جلدوں پر مشتمل كتب (مثلاً فتح البارى شرح صحيح بخارى) كى تحقیق وتعليق كا اعزاز بهى حاصل ہے۔ علم و تحقیق كو تصنيف و تاليف ميں محدود تصور كرنا جديد تمدنى ارتقا كا عطا كردہ وہ تصور ہے جو نہ صرف حقيقت سے عارى ہے بلكہ ہميں اپنے شاندار ماضى سے منقطع كرديتا ہے۔ كسى شخص كا غضب كا مقرر ہونا، خوبصورت الفاظ ميں اپنے مافى الضميركو بيان كرنا يا اعلىٰ درجے كے مدرّس ہونے كا يہ لازمى مطلب نہيں كہ وہ اپنے اماثل و اقران ميں زيادہ برتر اور ممتاز علمى حيثيت كا بهى حامل ہے كيونكہ تقرير، تحرير اور تدريس تينوں كا تعلق ايسے فنون سے تو ہے جو علم كے لئے غيرمعمولى اہميت ركهتے ہيں اور عموماً اہل علم كے علم كا ثمر ان فنون ميں سے كسى صورت ميں ظاہرہوتا ہے ليكن انہيں اس طرح علم كالازمہ قرار نہيں ديا جاسكتا كہ علم كى پيمائش يا علم كاميزان ان كے ذريعے ہى قائم كياجائے۔ علم كى مثال اس قلب كى سى ہے جو انسان كى بنيادى طاقت اور صلاحيت كامركز ہے، اس طاقت كا اظہار كبهى ہاتھ سے ہوتا ہے ، كبهى زبان سے اور كبهى كسى اور ذريعہ سے۔ ظاہر ہے كہ انسان كا قلب قوى ہوگا تو اس كے اعضاء و جوارح ميں بهى وہ قوت