کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 135
ڈاكٹر رفيع الدين ہاشمى كے بقول
”تكليف دہ امر يہ ہے كہ بعض جامعات ميں كئى مقالات ملازمين كى ملى بهگت سے خرد برد كر لئے گئے اور يونيورسٹى كے پاس ان كا ايك بهى نسخہ موجود نہيں ہے۔“ (ايضا: ص 130)
دينى مدارس اور يونيورسٹيوں ميں تحقیق كو فروغ دينے كا اوّلين قدم يہ ہے كہ تبادلہ معلومات كا رجحان پيدا كياجائے اور مراكز جمع و فراہمى معلومات قائم كئے جائيں جس ميں ظاہر ہے پرائيويٹ علمى اداروں يا مدارس اس كام كى تكميل پر قادر نہيں كيونكہ انہيں يونيورسٹيوں كے ہاں كوئى قدرومنزلت حاصل نہيں جو انہيں اپنى فہرستيں فراہم كريں ،البتہ يہ كام يونيورسٹى كى سطح پر يا اعلىٰ تعليمى كميشن (HEC) كے زيرنگرانى بخوبى ہوسكتا ہے۔
غير سندى تحقیق
غيرسندى تحقیق وہ ہے جو روايتى طور پر ہميشہ سے چلى آتى ہے اور ہمارا آج تك كا تحقیقى ذخيرہ غيرسندى تحقیق پرمشتمل ہے۔ سندى تحقیق كے لئے ايك باقاعدہ فن ِ تحقیق تشكيل ديا گيا ہے جس ميں معلومات كو جمع كرنے، پيش كرنے اور مرتب كرنے كے متعين ضوابط موجود ہيں ۔ ليكن تحقیق صرف اسى كو قرار دينا جو فن تحقیق كے نووضع كردہ ضابطوں پر پورى اُترتى ہو، جبر اور فكرى محكومى كاغماز ہے۔ اس كا مطلب يہ ہے كہ جو سابقہ تحقیقى كام ان ضوابط پرتيار نہيں ہوا انہيں دائرۂ تحقیق سے خارج قرار ديا جائے۔ ايسى صورت ميں ائمہ اسلاف كى تمام علمى كتب، بنيادى مصادرِ اسلام حتىٰ كہ سائنس و فنون كى تمام سابقہ كتب بهى غير تحقیقى قرار پاجائيں گى۔ اس كا دوسرا مطلب يہ بهى ہوگا كہ آج تك كسى موضوع پر تحقیق كى ہى نہيں گئى لہٰذا تحقیق كا دائرہ اس قدر محدود كردينا صريح ناانصافى ہوگى۔ اس اعتبار سے فن تحقیق اور چيز ہے اور تحقیق اس سے زيادہ جامع تر مفہوم ركهتى ہے۔ ڈاكٹر گيان سنگھ كے بقول
” تحقیق سچ يا حقيقت كى دريافت كا عمل ہے۔“ (اُصول تحقیق: ص 9)
بقول قاضى عبد الودود ” تحقیق كسى امر كو اس كى اصل شكل ميں ديكهنے كى كوشش ہے۔“مولانا كلب عابد كا كہنا ہے كہ ” تحقیق حق كا اثبات ہے يا حق كى دريافت…“ (ايضا)
مدارس ميں اس موضوع پر پڑهائى جانے والى كتاب ميں تحقیق كى تعريف يوں كى گئى ہے :