کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 134
فہرستيں كمپيوٹر سى ڈيز كے علاوہ كتابى شكل ميں بهى موجو دہيں جس ميں سالِ تكميل، سپروائزر كا نام، تعداد صفحات اور مقالہ كا مختصر تعارف موجود ہے۔بعض تحقیقى اداروں كى يہ كوشش ہے كہ ان تمام مقالہ جات كے مكمل متن كو بهى سى ڈيز كى شكل ميں ريليز كرديا جائے جوعظيم اسلامى و علمى خدمت ہوگى۔اس كے لئے رياض كے بعض تحقیقى اداروں ميں كام جارى ہے۔ مزيد برآں سعودى عرب كى ’ہائر ايجوكيشن منسٹرى‘ نے اپنے ملك كے 1000/ اہم ترين مقالہ جات كى اشاعت كا سلسلہ بهى شروع كرديا ہے جن ميں سے 100 كے لگ بهگ شائع ہوچكے ہيں اور ان كا تحقیقى معيار غير معمولى حد تك ممتازہے۔ جہاں تك پاكستان كا تعلق ہے تو پاكستان ميں 2001ء ميں ريگولر ايم فل اور Ph.D كا آغاز ہونے كے بعد اس نوعيت كى تحقیق ميں كئى گنا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت ہر يونيورسٹى ميں سينكڑوں طلبہ پى ايچ ڈى كررہے ہيں ، ظاہر ہے كہ اس كے نتائج چند سالوں بعد سامنے آئيں گے۔ليكن جہاں تك فہارس كا تعلق ہے تو 2000ء تك پنجاب يونيورسٹى كے شعبہٴ علوم اسلاميہ كے علاوہ كسى يونيورسٹى نے اپنے مقالات كى فہرست شائع نہ كى تهى۔ اگرچہ ديكها ديكهى اب ديگر يونيورسٹيوں كى فہرستيں بهى سامنے آرہى ہيں ۔علامہ اقبال اوپن يونيورسٹى كے پروفيسر سجاد تترالوى نے ذاتى كوشش سے ايسى فہرستيں جمع كرنے كى كوششيں كئى سال قبل شروع كى تهيں ، ليكن اس كى اشاعت كے بارے علم نہيں ہوسكا۔ جامعہ لاہور الاسلاميہ سے ملحق’مجلس ال تحقیق الاسلامى‘ كى طرف سے ايسى فہرستيں جمع كرنے كے منصوبے پر بهى كام كيا گيا اور اس كے لئے متعدد سركارى اداروں كو خطوط بهى لكهے گئے ليكن ابهى تك اس ميں بهى خاطر خواہ كاميابى حاصل نہيں ہو سكى۔جديد يونيورسٹيوں بالخصوص مشرقى علوم كے شعبوں ميں تحقیق ميں درپيش مسائل ومشكلات بے حساب ہيں جن كا ايك مختصر جائزہ حسب ِذيل مقالات ميں ليا گيا ہے ، تفصيل كے شائقين ان كى طرف رجو ع كرسكتے ہيں : ’جامعات ميں ادبى تحقیق؛ مسائل او رتجاويز‘ از ڈاكٹر رفيع الدين ہاشمى اور ’ تحقیقى پيش رفت ميں جامعات كا كردار؛ چند عمومى مسائل اور تجاويز‘ از ڈاكٹر معين الدين عقيل … يہ دونوں مقالات IPS كى ’پاكستان ميں جامعات كا كردار ‘ نامى كتاب ميں ملاحظہ كئے جاسكتے ہيں ۔