کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 133
جہاں تك مدارس پر فرقہ وارانہ موضوعات ميں خصوصى توجہ دينے كے اعتراض كا تعلق ہے تواس ضمن ميں مدارس كى پاليسى اور منظور شدہ موضوعات سے يہ اندازہ بخوبى لگايا جاسكتا ہے كہ ان ميں ايسے موضوعات كى بالكل حوصلہ افزائى نہيں كى جاتى ليكن عملاً اس صورتحال ميں مزيد بہترى او راصلاح كى كافى گنجائش موجود ہے۔البتہ لكهے جانے والے مقالات ميں فرقہ وارانہ موضوعات اور فروعى مسائل پر مقالات كى تعداد 8 تا 10 فيصد سے زيادہ نہيں ۔ ٭ يہاں اس امر كا تذكره بهى مناسب ہوگا كہ دينى مدارس ميں وفاق كے امتحانات منظور ہونے سے قبل سندى تحقیق كا تصور كيسے پيدا ہوا…؟ 1961ء ميں مدينہ منورہ يونيورسٹى كے قيام اور ديگر سعودى جامعات ميں پاكستانى اہل علم كے تعليم پانے كے بعد ان مدارس ميں يونيورسٹى كے مختلف لوازمات پورا كرنے كا احساس پيدا ہوا۔ اس سے قبل اور بعد جامعہ ازہر، مصر اور بغداد كى يونيورسٹيوں ميں بهى پاكستانى علما اعلىٰ تعليم كے لئے جاتے رہے ۔ مدينہ منورہ يونيورسٹى ميں بحث و تحقیق كى صورتِ حال يہ ہے كہ 12 سالہ ثانوى كے بعد ليسانس (ايم اے) كى سطح پر چار سالہ كورس ميں پہلے تو آخرى سال ميں تحقیقى مقالہ لكهنا ضرورى ہوتا تها ليكن چند سالوں سے ہر سال ميں ايك مقالہ لكھنا ضرورى قرار ديا گيا ہے جبكہ ہر سمسٹر ميں مختلف Assignment اس كے علاوہ ہيں ۔ اس لحاظ سے يہ كہنا بے جا نہ ہوگا كہ باوجود اس امر كے كہ مدارس كو آج تك اعلىٰ سنديں دينے كى سركارى اہليت (چارٹر) حاصل نہيں ، انہوں نے نہ صرف وفاق المدارس كى واحد سند پر وسيع تحقیقى كام كيا ہے بلكہ اس سے قبل وہ اپنى اسناد پر بهى تحقیقى كام كرتے آئے ہيں اور ان كے ہاں سندى تحقیق كى يہ روايت جديد يونيورسٹيوں سے كسى طرح متاخر نہيں ۔انہوں نے اس سلسلے ميں ملكى يونيورسٹيوں كے بجائے عالمى اسلامى يونيورسٹيوں سے تحقیق كا يہ جديد تصور لياہے۔ تحقیقى كام كى فہارس مجلس ال تحقیق الاسلامى ميں عالم عرب كے تمام ممالك كى اسلامى يونيورسٹيوں كے ڈگرى سطح كے تمام مقالہ جات كى فہرستيں موجود ہيں ۔ 15 ہزار كے قريب صرف اسلامى موضوعات پر يہ مقالہ جات بى اے، ايم اے، ايم فل اور پى ايچ ڈى كى ڈگريوں كے لئے لكھے گئے ہيں ۔ يہ