کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 131
اور تنظيم المدارس (بريلوى مكتب ِفكر) ہر سال 15 سے 20 موضوعات كا اعلان كرتا ہے۔ يہ تحقیقى كام وفاق ہائے مدارس كے قيام (كم وبيش 25سال) سے جارى و سارى ہے اور ايك محتاط اندازے كے مطابق ايسے مقالات كى تعداد 9ہزار سے متجاوز ہے۔صرف اہل حديث مكتب فكر كے وفاق ميں 3 ہزار كے قريب مقالات لكھوائے جاچكے ہيں ۔ ياد رہے كہ ان وفاقوں كى سندات كو ايم اے عربى واسلاميات كے مساوى قرار ديا گيا ہے۔ اس تحقیقى كام كى فہرستيں ان مختلف دينى امتحانى بورڈز سے حاصل كى جاسكتی ہيں ۔ مدارس كى اپنى اسناد كے لئے تحقیق دينى مدارس نے ہميشہ مادّى تصورات سے بالاتر ہوكر علم كے نبوى ورثہ كے تحفظ اورالٰہى ارشادات كى تعميل ميں ہر دور ميں تعليم جارى و سارى ركهى ہے اور برصغير كے يہ مدارس پرائيويٹ سيكٹر ميں تعليم كى نہ صرف درخشندہ مثال ہيں بلكہ مسلمانانِ برصغير كا پورے عالم اسلام سے سرمايہٴ امتياز بهى ہيں ۔ ان مدارس نے اپنى جارى كردہ سندوں كے لئے بهى مقالات كو بڑى اہميت دے ركهى ہے۔ بعض ممتاز مدارس مثلاً جامعہ لاہور الاسلاميہ، جامعہ اشرفيہ اور جامعہ نعيميہ ميں آخرى كلاسوں كے لئے مقالہ لكھنا ضرورى ہے۔ اسى طرح دينى مدارس ميں درجہ تخصص (Specialization) ميں بهى مقالہ لكھنا لازمى تصور ہوتا ہے اور يہ درجہ ہائے تخصص مذكورہ جامعات كے علاوہ ممتاز مدارس مثلاً دارالعلوم كراچى، جامعہ سلفيہ فيصل آباد، جامعہ حقانيہ اكوڑہ خٹك اور جامعہ ابى بكر الاسلاميہ وغيرہ ميں كام كررہے ہيں ۔ اہلحديث مدارس ميں بالخصوصمركز التربيہ الاسلاميہ فيصل آباد ميں علومِ حديث اور مركز الامام بخارى صادق آباد ميں اُصولِ فقہ كى كتابوں كى ايڈيٹنگ يا تحقیقى مقالہ پر خصوصى توجہ دى جاتى ہے۔جامعہ لاہور الاسلاميہ (جو مجلس ال تحقیق الاسلامى سے ملحق ادارہ ہے) ميں ابتدائى چند سالوں كا ريكارڈ تيار كيا گيا تو 1985ء تك ايسے 82 مقالہ جات لكھے جاچكے تهے۔ مدارس پر اكثر يہ اعتراض كيا جاتا ہے كہ يہاں فرقہ وارانہ موضوعات پر اور فروعى مباحث ميں تحقیق ہوتى ہے، اس الزام كے ازالے كے لئے ان 85 مقالہ جات ميں صرف 10 مقالہ