کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 129
سالوں ميں پرائيويٹ سيكٹر ميں كھمبیوں كى طرح اُگ آئى ہيں جو صرف مادّى منفعت بخش علوم كاكاروبار كرتى ہيں ، ليكن كئى دہائيوں سے قائم عظيم دينى جامعات جن كے فضلا كى تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے اور وہ دنيا بهر ميں ممتاز علمى خدمات بهى انجام دے رہے ہيں ، جيد اہل علم ان ميں سرگرم ہيں ، اس كے باوجود دينى ادارہ ہونے كے ناطے سند دينے كى منظورى/ اہليت سے محروم ہيں ۔ چنانچہ اس صورتحال كے پيش نظرسند دينے كى اہليت حاصل كرنے كے لئے كئى دينى اداروں نے اپنا بھیس بدل كر جديد علوم كى بهى ويسى ہى دكان سجا لى ہے، جس كے ذريعے نہ صرف نفع بخش آمدن ہوتى ہے بلكہ معمولى بهاگ دوڑسے چارٹر بهى مل جاتا ہے۔ ايسے ادارے اس كوشش ميں ہيں كہ اس طرح ايك بار سند جارى كرنے كى اہليت حاصل كرنے كے بعد وہ دينى فضلا كے لئے بهى اسى اہليت كا موزوں استعمال كريں گے۔
اسلام كے نام پر حاصل كى جانے والى مملكت ميں اسلامى تعليم دينے والے اداروں كو دينى تعليم كے نام پر مستند درجہ ملنا ممكن نظر نہيں آتا، نہ ہى ان اداروں كے ليے كوئى تعليمى بجٹ ہے يا اُنہيں ملكى تعليمى پاليسى ميں شريك سمجھا جاتاہے بلكہ ان اداروں كے مسائل يا تو وزارتِ داخلہ كے سپرد ہيں جو امن وامان كى ذمہ دار ہے يا مشرف دور سے قبل زكوٰة كى مد سے انہيں چند لاكھ روپے مل جاتے تهے بلكہ اس اشك شوئى ميں بهى بہت سے حضرات نام نہاد دينى اداروں كے نام پر اپنا حصہ بٹورتے رهے۔ تعليم كے نام پر يہ دينى مدارس وزارتِ تعليم ميں كوئى استحقاق نہيں ركهتے۔ انگريز سامراج نے مدارس سے اوقاف چھین كر جس طرح انہيں بے دست وپا كيا تها، اسلامى حكومت نے سامراج كى اتباع ميں ان اوقاف كو قبضے ميں لے كر ان كى آمدنى پر تو اپنا اختيار قائم كرركها ہے ليكن اس مد سے دينى مدارس كو پهوٹى كوڑى نہيں دى جاتى۔ يہ اوقاف مزاروں اور مجاوروں كى خدمت تو كرتے ہيں ، دينى تعليم كى سرپرستى كى كوئى ذمہ دارى ان پر عائد نہيں ہوتى۔ اس كے باوجود ہر عوامى يا سركارى مجلس ميں مدارس سے يہ تقاضا كيا جاتاہے كہ وہ انگريز كے دورِ غلامى سے نكل آئيں اور اپنا تحفظ كا انداز ترك كركے،تعليم كے اصل دهارے ميں شموليت اختيار كر ليں يا بالفاظِ ديگر جديد معاشرہ ميں زندہ حيثيت اختيار كركے جديد معاشرتى مسائل حل كرنے كا چيلنج قبول كريں مگر كيسے؟ كام كرنے كى فضا مسموم ہے اور وسائل معدوم !!