کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 128
وگرنہ برصغيركى ابتدائى درس گاہيں نہ صرف مختلف شخصيات كے وجود سے تقويت پكڑتى رہيں بلكہ ان كے ہاں ’اجازہ‘ (سند) كا تصور بهى كسى معروف اُستاد سے وابستہ رہا ہے۔ سب سے پہلے برصغير ميں انگريزوں كے قائم كردہ دينى علوم كے ادارہ مدرسہ عاليہ كلكتہ نے 1780ء ميں اجازہ كى بجائے ’ادارہ جاتى سند‘ دينے كى طرح ڈالى ٭جسے آج كل ڈگرى كہا جاتا ہے اور اس كے ادنىٰ مراحل كى اسناد سر ٹيفكيٹ كہلاتى ہيں ۔ اجازہ (درجہ فضيلت Degree) سے آگے كى سندات ما بعد الجامعاتى (Post graduate) كہلاتى ہيں ۔آج كل درجہ اجازه كو بهى برطانيہ، فرانس كى پيروى ميں B.A يا امريكہ كى پيروى ميں Licenciateكہاجاتا ہے۔ عرب ممالك نے انہى الفاظ كو معرب بنا كر بكالوريا/بكالوريوس يا ليسانس كا نام دے ديا ہے۔ خلاصہ يہ ہے كہ جديد يونيورسٹياں اپنے ادارہ جاتى نظم كى بنياد پر علم كى دنيا ميں ايك مقام حاصل كرتى ہيں جبكہ ماضى ميں اسلامى تعليمى ادارے نامور شخصيات كے وجود سے پہچانے جاتے رہے ہيں ۔اب ادارہ جاتى تعليم كايہ تصور مسلمانوں ميں بهى قبو لِ عام حاصل كرگيا ہے۔ نئے انسانى تجربات اور نظاموں كا اسلام مخالف نہيں بلكہ ان كو بنظر تحسین دیكھتا ہے ليكن غيرمسلموں سے درآمدہ تصور ہمارى اسلامى روايات كى اس طرح حفاظت نہيں كرسكتے جيسے ہمارى نظام تعليم كا فطرى ارتقا اس كا محافظ بنتاہے۔ چاہئے تو يہ تها كہ مسلمان اپنے نظاموں ميں اپنے اقدار وروايات كى رو رعايت سے خود ارتقا كرتے ليكن افسوس كہ اس ارتقا ميں ہميں غيروں كا محتاج بننا پڑا ہے اور علم و تحقیق كے اصل وارث غيروں كے دست ِنگر بن كر رہ گئے ہيں ۔ دينى مدارس سے مسلم حكومت كى بے اعتنائى سابقہ صفحات ميں ہم ذكر كرآئے ہيں كہ تحقیق كا يہ تصور اسناد سے وابستہ ہے۔ جہاں تك سندى تحقیق كا تعلق ہے تومقامِ افسوس ہے كہ قيامِ پاكستان كے 57 برس كے بعد بهى كسى ايك بهى دينى مدرسہ كو كوئى اعلىٰ تعليمى اسناد دينے كا اختيار نہيں ديا گيا۔يہ صورتِ حال الميہ سے كم نہيں كہ جديد تعليمى ادارے جو چند سالوں ميں علمى اُفق پر نمودار ہوئے اوركسى علمى اعزاز يا اعلىٰ كارنامہ كے حامل بهى نہيں ، حكومتى ادارييونيورسٹى كاچارٹر عطا كرنے كے لئے ان كى درخواستيں منظور كرنے ميں تو دلچسپى كا مظاہرہ كرتے ہيں اور ايسى بيسيوں يونيورسٹياں چند ٭ دیکھئے عبد الستار خاں ، تاریخ مدرسہ عالیہ کلکتہ، طبع ڈھاکہ ۱۹۵۷ء