کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 127
اس اعتبار سے طلبہ سے تحقیق كرانے كا يہ تصور جديد٭ ہے جس كا اشارہ ڈاكٹر گيان سنگھ نے بهى كيا ہے۔بلكہ انہوں نے يہ بهى قرار ديا ہے كہ طلبہ كى ايسى تحقیق اپنے معيار كے لحاظ سے اس درجہ كى حامل نہيں جو ماہرين فن يا اساتذہ علمى رسوخ اور تجربہ كے بعد خالص اپنے علمى ذوق كى تشفى كے لئے كرتے ہيں۔ (اُصولِ تحقیق : صفحہ 16) طلبہ كى يہ تحقیق فن تحقیق كے ضابطوں ، موضوع كے فنى تقاضوں اور حسن ترتيب كا جمال اگر ركھتى ہے تو فضلا كى تحقیق اپنے موضوع پر گيرائى وگہرائى، جامعيت اور علم وفضل كا شاہكار ہوتى ہے۔’اسلامى تحقیق كا مفہوم، مدعا اور طريق كار‘ كے مصنف ڈاكٹر رفيع الدين نے مغرب سے درآمدہ اس تصورِ تحقیق كو ميكانيكى تحقیق قرار ديا ہے اور اسے اسلامى تقاضوں سے ہم آہنگ كرنے كى ضرورت پر زور ديا ہے۔ليكن اس امر كو تسليم نہ كرنا بخل ہو گا كہ تحقیق كو اس طرح تعليمى اداروں سے وابستہ كرنے سے تحقیقى عمل ميں نہ صرف بہت تيزى آئى ہے بلكہ يہ اندازِ تحقیق مختلف موضوعات سے متعلقہ مواد كوجمع كرنے كا ايك اہم ذريعہ ثابت ہوا ہے۔ اس تحقیق كے نتائج گو بہت ثقاہت كے حامل نہيں ليكن ماہر اَساتذہ كا حقيقى اِشراف اگر حاصل ہو جائے تو يہ كمى بهى پورى ہو سكتى ہے۔ جديد تعليمى اداروں كے ارتقا ميں يہ امر بهى ملحوظ رہنا چاہئے كہ ادارہ جاتى سطح پر نہ صرف تحقیق وتصنيف كا يہ تصورنيا ہے بلكہ تعليم كاعلمى شخصيات كى بجائے كسى تعليمى ادارے پر انحصار كا رجحان بهى زيادہ پرانا نہيں ۔ چند دہائياں قبل ہى تعليمى اداروں كا يہ تصور زيادہ راسخ ہوا ہے ٭ ادارہ جاتی تحقیق ؛جس میں یونیورسٹی کی اعلیٰ مجلس علمی (ایڈوانس سٹڈیز بورڈ) کے علاوہ مشرف (سپروائزر) اور انتظامیہ اجتماعی نظام اور سہولتوں کی مدد سے تحقیقی عمل میں شامل ہوتے ہیں ، داخلی اور خارجی ممتحن اس تحقیق کے علمی معیار کی پرکھ کرتے ہیں … اس کا تصور نہ صرف یہ کہ مدارس میں نوآمدہ ہے بلکہ ہماری جدید یونیورسٹیاں بھی اس میدان میں نووارد ہیں ۔چنانچہ پاکستان کی قدیم اور اہم ترین یونیورسٹی جامعہ پنجاب کے شعبۂ اسلامیات میں آج سے ۱۵ سال قبل صرف ۳۹ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جاری کی گئی تھیں ، جبکہ ۱۹۷۶ء تک کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات اور عربی میں صرف چار چارپی ایچ ڈی اور ایک ایم فل کی ڈگری جاری کی گئی تھی۔ (پاکستانی جامعات میں عربی زبان وادب اور علومِ اسلامیہ میں تحقیق از ڈاکٹر سفیر اختر مجلہ فکر ونظر: اکتوبر ۱۹۹۸ئ، صفحہ ۷۹)