کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 126
يونيورسٹيوں ميں اساتذہ كو تحقیقى مقالات لكھنے كى حوصلہ افزائى كى جاتى ہے اوران كى ترقى اس سے مشروط ہوتى ہے۔جديد يونيورسٹيوں نے علم و تحقیق كے مادّى تصور كے بموجب ان علمى و تحقیقى كاوشوں پر مالى ترغيبات او روظائف بهى مقرر كرركهے ہيں ۔
جديد يونيورسٹيوں كے بنيادى مقاصد ميں اب ’حدود علم كى توسيع اور غير موجود حقائق كى دريافت ‘بهى شامل ہے جس كا ايك باقاعدہ نظام يہاں تشكيل ديا گيا ہے۔ اس اعتبار سے سب سے پہلے اس سوال كا جائزہ لينے كى ضرورت ہے كہ كسى تعليمى ادارے كے بنيادى وظيفہ ’تعليم‘ كے بعد كيا تحقیق اور تصنيف وتاليف كو بهى اس كے مقاصد ميں شامل كيا جائے اور تحقیق كو اس قدر اہميت دى جائے كہ اس كى بنياد پر تعليم كى آخرى ڈگرى عطا كى جائے۔ مزيد برآں يہ تصور كيا دينى تعليمى اداروں ميں بهى پايا جاتا ہے ؟
اگرچہ يہ سوال جديد يونيورسٹيوں كا قائم كردہ ہے اور انہوں نے اپنے مقاصد ميں تحقیق وتصنیف كو شامل كركے نہ صرف اس كے لئے ايك باقاعدہ نظام وضع كياہے بلكہ اس كے لئے ايك مستقل فن تحقیق بهى تشكيل دے ركها ہے جس كى رو سے پروفيسرز، ايسوسى ايٹ پروفيسر، اسسٹنٹ پروفيسراور ليكچرر جيسے تعليمى كيڈر قائم كرنے كے بالمقابل پروفيسر،ريڈر اور ريسرچ سكالروغيرہ كے مختلف مدارج بهى تحقیق وتصنيف كے ميدان ميں متعارف كرائے گئے۔ ليكن مسلم تعليمى اداروں ميں تعليم كے اعلىٰ مراحل كو اس انداز كى تحقیق سے وابستہ نہيں كيا گيا بلكہ ان كے ہاں تحقیق وتصنيف كا اپنا عليحدہ اُسلوب اور نظام ہے جس كامرحلہ حصولِ تعليم كے بعد مستقل فن تالیف كى صورت ميں سامنے آتا ہے۔720ھ ميں ہلاكو خاں كے وزير اعظم معروف محقق او رعلامہ خواجہ نصير الدين طوسى نے تعليم اور تصنيف ميں حسب ِذيل توازن قرار ديا تها كہ تعليم وتعلّم سے وابستہ لوگوں كو
25 سال كى عمر تك صرف تحصيل علم ميں مشغول رہنا چاہئے۔
25 سے 40 سال تدريس ميں صرف كرنا چاہئيں ۔
40 سے 50 سال تك تصنيفى كام بهى شروع كردينا چاہئے۔
50 سے 60 سال تك تمام اوقات تصنيف و تحقیق ميں صرف كرنا چاہئے۔